درد فرقت کو کیا کرے کوئی

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
درد فرقت کو کیا کرے کوئی
by صفی اورنگ آبادی

درد فرقت کو کیا کرے کوئی
ہائے عادت کو کیا کرے کوئی

دل کی حسرت کو کیا کرے کوئی
اس مصیبت کو کیا کرے کوئی

پیار کرنے سے عار ہے تو کہو
اچھی صورت کو کیا کرے کوئی

دوستوں کو تو روکوں شوخی سے
ساری خلقت کو کیا کرے کوئی

چشم و دل سے چھپاؤں درد نہاں
رنگ صورت کو کیا کرے کوئی

اپنے دل کا تو خون کر ڈالوں
ان کی صورت کو کیا کرے کوئی

ان کا فرمان ہے کہ آہ و فغاں
ما بدولت کو کیا کرے کوئی

ناصحوں کو سلام بھی کر لوں
اس نصیحت کو کیا کرے کوئی

آرزو ہے تو خوف بھی کچھ ہے
پاک نیت کو کیا کرے کوئی

تجھ میں جو بات چاہیے وہ نہیں
لے کے صورت کو کیا کرے کوئی

وہ خفا ہوں تو میں خطا کر لوں
چھیڑ حجت کو کیا کرے کوئی

مہرباں ہیں جناب دل اس پر
ایسے حضرت کو کیا کرے کوئی

میری تقریر میں تو ہے تاثیر
تیری صحبت کو کیا کرے کوئی

نام بھی ان کا ہم نہیں لیتے
اب شرارت کو کیا کرے کوئی

اے صفیؔ وہ بگڑ گئے من کر
تیری قسمت کو کیا کرے کوئی

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse