درد دل یار رہا درد سے یاری نہ گئی

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
درد دل یار رہا درد سے یاری نہ گئی
by مبارک عظیم آبادی

درد دل یار رہا درد سے یاری نہ گئی
زندگی ہم سے تو بے لطف گزاری نہ گئی

دن کے نالے نہ گئے رات کی زاری نہ گئی
نہ گئی دل سے کبھی یاد تمہاری نہ گئی

ہم تو خوں گشتہ تمناؤں کے ماتم میں رہے
سینہ کوبی نہ گئی سینہ فگاری نہ گئی

انتظار آپ کا کب لطف سے خالی نکلا
رائیگاں رات کسی روز ہماری نہ گئی

بخشوایا مجھے تم نے تو خدا نے بخشا
نہ گئی روز جزا بات تمہاری نہ گئی

لوگ کہتے ہیں بدلتا ہے زمانہ لیکن
دن ہمارا نہ گیا رات ہماری نہ گئی

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse