درد دل وہ ہے کہ راحت سے سروکار نہیں

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
درد دل وہ ہے کہ راحت سے سروکار نہیں
by جمیلہ خدا بخش

درد دل وہ ہے کہ راحت سے سروکار نہیں
طاقت صبر نہیں قوت گفتار نہیں

تیغ ابرو کو سنبھالو میں جھکاؤں گردن
جان دینے سے تو جاں باز کو انکار نہیں

دوں میں کس چیز سے تشبیہ تحیر ہے مجھے
صورت گل تو مرا زخم دل زار نہیں

کیسی مشکل میں پھنسایا ہے محبت نے مجھے
بیٹھنا جبر ہے اور طاقت رفتار نہیں

کس لیے میں دل صد چاک رکھوں پہلو میں
گیسوئے یار کو شانے سے سروکار نہیں

دل وہ کس کا ہے نہیں جو ترے قدموں پہ نثار
کون ہے وہ جو ترا طالب دیدار نہیں

دہر فانی میں پریشان ہے ساری خلقت
ایسا کوئی ہے جو مجموعۂ افکار نہیں

ناخن دشت جنوں دیکھیے کیا کرتا ہے
دامن و جیب و گریباں میں کوئی تار نہیں

گر وہاں جاؤ جمیلہؔ تو یہ کہنا اس سے
گو میں کاہیدہ ہوں پر عشق ترا بار نہیں


This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.