درد دل وہ ہے کہ راحت سے سروکار نہیں
Appearance
درد دل وہ ہے کہ راحت سے سروکار نہیں
طاقت صبر نہیں قوت گفتار نہیں
تیغ ابرو کو سنبھالو میں جھکاؤں گردن
جان دینے سے تو جاں باز کو انکار نہیں
دوں میں کس چیز سے تشبیہ تحیر ہے مجھے
صورت گل تو مرا زخم دل زار نہیں
کیسی مشکل میں پھنسایا ہے محبت نے مجھے
بیٹھنا جبر ہے اور طاقت رفتار نہیں
کس لیے میں دل صد چاک رکھوں پہلو میں
گیسوئے یار کو شانے سے سروکار نہیں
دل وہ کس کا ہے نہیں جو ترے قدموں پہ نثار
کون ہے وہ جو ترا طالب دیدار نہیں
دہر فانی میں پریشان ہے ساری خلقت
ایسا کوئی ہے جو مجموعۂ افکار نہیں
ناخن دشت جنوں دیکھیے کیا کرتا ہے
دامن و جیب و گریباں میں کوئی تار نہیں
گر وہاں جاؤ جمیلہؔ تو یہ کہنا اس سے
گو میں کاہیدہ ہوں پر عشق ترا بار نہیں
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |