درد آغاز محبت کا اب انجام نہیں

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
درد آغاز محبت کا اب انجام نہیں
by صفی لکھنوی

درد آغاز محبت کا اب انجام نہیں
زندگی کیا ہے اگر موت کا پیغام نہیں

کیجیے غور تو ہر لذت دنیا ہے فریب
کون دانہ ہے یہاں پر جو تہ دام نہیں

ہے تنزل کہ زمانے نے ترقی کی ہے
کفر وہ کفر اب اسلام وہ اسلام نہیں

کون آزاد نہیں حلقہ بگوشوں میں ترے
نقش کس دل کے نگینے پہ ترا نام نہیں

نا رسیدہ ہے ترا میوۂ جنت زاہد
پختہ مغزوں کو تلاش ثمر خام نہیں

یہی جنت ہے جو حاصل ہو سکون خاطر
اور دوزخ یہی دنیا اگر آرام نہیں

شعر گوئی کے لیے بس وہی موزوں ہے صفیؔ
جس کو جز فکر سخن اور کوئی کام نہیں

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse