دخل ہر دل میں ترا مثل سویدا ہو گیا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
دخل ہر دل میں ترا مثل سویدا ہو گیا
by شیخ علی بخش بیمار

دخل ہر دل میں ترا مثل سویدا ہو گیا
الاماں اے زلف عالمگیر سودا ہو گیا

گو پڑا رہتا ہوں آب اشک میں مثل حباب
سوزش دل سے مگر سب جسم چھالا ہو گیا

اے شہ خوباں تصور سے ترے رخسار کے
چشم کا پردا بعینہ لعل پردا ہو گیا

فرق رندان و ملائک اب بہت دشوار ہے
مے کدہ اس کے قدم سے روشن ایسا ہو گیا

دانۂ انگور اختر چاندنی مے ماہ جام
نثر طائر بط قرابا چرخ مینا ہو گیا

سنتے ہیں تائب ہوا اس بت کے گھر جانے سے تو
کیا ترا بیمارؔ پتھر کا کلیجا ہو گیا

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse