دام خیال زلف بتاں سے چھڑا لیا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
دام خیال زلف بتاں سے چھڑا لیا
by صفی اورنگ آبادی

دام خیال زلف بتاں سے چھڑا لیا
کیا بال بال مجھ کو خدا نے بچا لیا

اب اس کو رحم آئے یہ قسمت کے ہاتھ ہے
بن جائے بات حال تو ہم نے بنا لیا

شرما کے منہ چھپانے کا انداز دیکھنا
گویا کہ اس نے عیب ہمارا چھپا لیا

یا یہ کہ ہم نے ترک محبت کی ٹھان لی
یا یہ ہوا کہ آج کسی کو منا لیا

ہوتا ہوں ایک نالے پہ میں قتل ہائے ہائے
آواز دے کے اپنی قضا کو بلا لیا

ظالم فریب دے کے نہ لے دل غریب کا
اک روز کام آئے گا تیرا دیا لیا

رشک رقیب ہو کہ غم دورئ حبیب
جو وقت پر نصیب ہوا ہم نے کھا لیا

میں کیا کہوں کے جان رہی کس عذاب میں
جب اس نے مجھ کو اپنی برابر بٹھا لیا

جھوٹا سہی ذلیل سہی کوئی کچھ کہے
میں نے تو آج ان کو گلے سے لگا لیا

پوچھی ہے دوست بن کے مرے دل کی آرزو
اس نے زبان دے کے مرا مدعا لیا

لے کوئی شان کی تو بس اتنا کیا کرو
جس سے کوئی بڑائی سنی آزما لیا

مہمان دوست کو جو کیا دوستوں کے ساتھ
دیکھا تھا جس کو دیدہ وروں کو دکھا لیا

اس کی بھی موت سہل ہو سکرات سے بچے
جس نے ہماری نزع میں نام آپ کا لیا

بیٹھے تو بات کرنے نہ دی بزم غیر میں
اٹھے تو اپنے ساتھ ہی مجھ کو اٹھا لیا

دل کا ہی ایک نام ہے شاید خیال بھی
ایسا اگر نہیں ہے تو دل اس نے کیا لیا

معشوق کو تو جلوہ نمائی ضرور ہے
دیکھو عزیز مصر کے سو میں دکھا لیا

اس درجہ تو نے خستہ کیا اے غم فراق
ہم کو ہماری گور نے ہونٹوں سے کھا لیا

سمجھا صفیؔ کو آپ نے جو کچھ غلط ہے یہ
دنیا کا بد معاش زمانے کا چالیا

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse