دامن کو اس کے کھینچیں اغیار سب طرف سے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
دامن کو اس کے کھینچیں اغیار سب طرف سے
by میر حسن دہلوی

دامن کو اس کے کھینچیں اغیار سب طرف سے
اور آہ ہم یہ کھینچیں آزار سب طرف سے

جب کام دل نہ ہرگز حاصل ہوا کہیں سے
دل کو اٹھا کے بیٹھے ناچار سب طرف سے

جی چاہتا ہے اس کے کوچہ میں بیٹھ رہیے
کر ترک آشنائی یکبار سب طرف سے

تجھ پاس بھی نہ آویں ہم اب تو جائیں کیدھر
تو نے تو ہم کو کھویا اے یار سب طرف سے

مژگاں سے اس کے کیوں کر دل چھٹ سکے ہمارا
گھیرے ہوئے ہیں اس کو وے خار سب طرف سے

پردے ہزار ہوویں حائل پہ حسن اس کا
دیتا ہے طالبوں کو دیدار سب طرف سے

کونا بھی ایک دل کا ثابت نہیں یہ کس نے
اس گھر کو کر دیا ہے مسمار سب طرف سے

نالہ ضعیف اپنا پہنچے گا کیونکہ واں تک
کی ہے بلند اس نے دیوار سب طرف سے

اک بار تو عزیزاں تم مل کے حال میرا
کر بیٹھو اس کے آگے اظہار سب طرف سے

دیوانہ ہو کے چھوٹا دنیا سے ورنہ یاراں
ہوتے گلے کے میرے تم ہار سب طرف سے

وے دن بھی آہ کوئی کیا تھے کہ جن دنوں میں
دل کو خوشی تھی اپنے دل دار سب طرف سے

بس تیرے غم میں آ کر اب خاک ہو گئے ہم
دل بجھ گیا ہمارا اک بار سب طرف سے

ذکر وفا و الفت مت چھیڑ بس حسنؔ اب
جی ہو رہا ہے اپنا بیزار سب طرف سے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse