دامان و کنار اشک سے کب تر نہ ہوے آہ

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
دامان و کنار اشک سے کب تر نہ ہوے آہ
by نظیر اکبر آبادی

دامان و کنار اشک سے کب تر نہ ہوے آہ
دو چار بھی آنسو مرے گوہر نہ ہوے آہ

جیسے کہ دل ان لالہ عذاروں کے ہیں سنگیں
دل چاہنے والوں کے بھی پتھر نہ ہوے آہ

کہتے ہیں کہ نکلا ہے وہ اب سیر چمن کو
کیا وقت ہے اس وقت مرے پر نہ ہوے آہ

خوباں کے تو ہم فدوی و بندہ بھی کہائے
لیکن وہ ہمارے نہ ہوے پر نہ ہوے آہ

کیا تفرقہ ہے جب کہ گئے ہم تو نہ تھا وہ
اور آیا وہ ہم پاس تو ہم گھر نہ ہوے آہ

کیا نقص ہے اس غیرت خورشید کے آگے
ہم لعل تو کب ہوتے ہیں اخگر نہ ہوے آہ

دریا بھی بہے مے کے پر اے بادہ پرستاں
یہ خشک وہ لب ہیں کہ کبھی تر نہ ہوے آہ

دیکھ اس کو نظیرؔ اب مجھے آتا ہے یہی رشک
کیوں ہم بھی اسی طرح کے دلبر نہ ہوے آہ

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse