دال کی فریاد

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
دال کی فریاد
by اسماعیل میرٹھی

ایک لڑکی بگھارتی ہے دال
دال کرتی ہے عرض یوں احوال
ایک دن تھا ہری بھری تھی میں
ساری آفات سے بری تھی میں
تھا ہرا کھیت میرا گہوارہ
وہ وطن تھا مجھے بہت پیارا
پانی پی پی کے تھی میں لہراتی
دھوپ لیتی کبھی ہوا کھاتی
مینہ برستا تھا جھونکے آتے تھے
گودیوں میں مجھے کھلاتے تھے
یہی سورج زمیں تھے ماں باوا
مجھ سے کرتے تھے نیک برتاوا
جب کیا مجھ کو پال پوس بڑا
آہ ظالم کسان آن پڑا
گئی تقدیر یک بہ یک جو پلٹ
کھیت کا کھیت کر دیا تلپٹ
خوب لوٹا دھڑی دھڑی کر کے
مجھ کو گونوں میں لے گئے بھر کے
ہو گئی دم کے دم میں بربادی
چھن گئی ہائے میری آزادی!
کیا بتاؤں کہاں کہاں کھینچا
دال منڈی میں مجھ کو جا بیچا
ایک ظالم سے واں پڑا پالا
جس نے چکی میں مجھ کو دل ڈالا
ہوا تقدیر کا لکھا پورا
دونوں پاٹوں نے کر دیا چورا
نہ سنی میری آہ اور زاری
خوب بنیے نے کی خریداری
چھانا چھلنی میں چھاج میں پھٹکا
قید خانہ مرا بنا مٹکا
پھر مقدر مجھے یہاں لایا
تم نے تو اور بھی غضب ڈھایا
کھال کھینچی الگ کیے چھلکے
زخم کیوں کر ہرے نہ ہوں دل کے
ڈالیں مرچیں نمک لگایا خوب
رکھ کے چولھے پہ جی جلایا خوب
اس پہ کف گیر کے بھی ٹھوکے ہیں
اور ناخن کے بھی کچوکے ہیں
میرے گلنے کی لے رہی ہو خبر
دانت ہے آپ کا مرے اوپر
گرم گھی کر کے مجھ کو داغ دیا
ہائے تم نے بھی کچھ نہ رحم کیا
ہاتھ دھو کر پڑی ہو پیچھے تم
جان پر آ بنی حواس ہیں گم
اچھی بی بی تمہیں کرو انصاف
ظلم ہے یا نہیں قصور معاف
کہا لڑکی نے میری پیاری دال
مجھ کو معلوم ہے ترا سب حال
تو اگر کھیت سے نہیں آتی
خاک میں مل کے خاک ہو جاتی
یا کوئی گائے بھینس چر لیتی
پیٹ میں اپنے تجھ کو بھر لیتی
میں تو رتبہ ترا بڑھاتی ہوں
اب چپاتی سے تجھ کو کھاتی ہوں
نہ ستانا نہ جی جلانا تھا
یوں تجھے آدمی بنانا تھا
اگلی بیتی کا تو نہ کر کچھ غم
مہربانی تھی سب، نہ تھا یہ ستم

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse