داغ دل ہیں غیرت صد لالہ زار اب کے برس

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
داغ دل ہیں غیرت صد لالہ زار اب کے برس  (1900) 
by حبیب موسوی

داغ دل ہیں غیرت صد لالہ زار اب کے برس
بعد مدت کے ہے پھر جوش بہار اب کے برس

آبیاری سے تری اے تیغ یار اب کے برس
تختۂ گل ہے ہمارا جسم زار اب کے برس

تا بہ دامن ہے گریباں تار تار اب کے برس
ٹوٹتے ہیں تلووں میں چبھ چبھ کے خار اب کے برس

ہے یہ زور آمد فصل بہار اب کے برس
مست ہیں زاہد بھی مثل بادہ خوار اب کے برس

الفت ساقی نے لو زاہد کو بھی کھینچا ادھر
دور مے کا سبحہ پر ہوگا شمار اب کے برس

فصل گل میں بعد مردن بھی ہوا جوش جنوں
سنگ طفلاں سے ہو ترمیم مزار اب کے برس

شیشہ میں پنہاں ہے مے اور دل میں ذوق مے کشی
آتے ہی ساقی کے اے ابر بہار اب کے برس

ساقیا عینک چڑھے ہوں رنج و غم بالائے طاق
بادۂ دی سالہ کا شیشہ اتار اب کے برس

ظلم پر باندھی ہے پھر صیاد و گلچیں نے کمر
قید بلبل کی ہے گلشن میں پکار اب کے برس

آرزو ہے بعد مردن بھی رہوں سیراب مے
صرف جام و خم کریں میرا غبار اب کے برس

جوش خون بلبل شیدا کا پیدا ہو اثر
لے اگر فصد رگ گل نوک خار اب کے برس

جلتے ہیں دل بلبلوں کے آشیاں کی طرح سے
آتش گل کی ہے گلشن میں پکار اب کے برس

قسمت اپنی اپنی ہے اچھا مبارک ہو حبیبؔ
خار غم ہم کو تمہیں پہلوئے یار اب کے برس

This work was published before January 1, 1929 and is anonymous or pseudonymous due to unknown authorship. It is in the public domain in the United States as well as countries and areas where the copyright terms of anonymous or pseudonymous works are 100 years or less since publication.

Public domainPublic domainfalsefalse