داغ جنوں دماغ پریشاں میں رہ گیا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
داغ جنوں دماغ پریشاں میں رہ گیا
by وزیر علی صبا لکھنؤی

داغ جنوں دماغ پریشاں میں رہ گیا
دامن میں خار چاک گریباں میں رہ گیا

جب دو قدم جنوں میں مرا ساتھ ہو گیا
پھیلا کے پاؤں قیس بیاباں میں رہ گیا

ابروئے یار سے جو بہت منفعل ہوا
منہ ڈال کر ہلال گریباں میں رہ گیا

تقلید بن پڑی نہ تمہاری خرام کی
طاؤس لڑکھڑا کے گلستاں میں رہ گیا

آئی بہار اور نہ چھوٹا میں اے جنوں
کیسا تڑپ کے خانۂ زنداں میں رہ گیا

تودہ قضا نے ناوک‌ جلاد کا کیا
میں ڈھیر ہو کے گنج شہیداں میں رہ گیا

کیا حادثہ پڑا مرے یوسف پر اے صباؔ
دل گر کے ان کی چاہ زنخداں میں رہ گیا

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse