داغ بیعانہ حسن کا نہ ہوا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
داغ بیعانہ حسن کا نہ ہوا
by امداد علی بحر

داغ بیعانہ حسن کا نہ ہوا
کھوٹے داموں معاملہ نہ ہوا

دل مکدر رہا صفا نہ ہوا
فیض آئینہ روؤں کا نہ ہوا

کچھ نہ کام آئے داغ کی بوٹی
قلب تانبا رہا تلا نہ ہوا

درد مندان خال کہتے ہیں
گولیاں کھائیں فائدہ نہ ہوا

دل خیالوں سے پائمال رہا
سبزۂ رہ گزر ہرا نہ ہوا

آئے فصل چمن کہ عید آئے
غنچے چٹکے کہ شادیانہ ہوا

ہر کسی زلف میں رہا الجھا
دام الفت سے دل رہا نہ ہوا

نہ کھٹکتے کسی کے آنکھوں میں
یہ غبار اپنا توتیا نہ ہوا

میرے آگے وہ بیٹھے غیر کے پاس
پاس میرا انہیں ذرا نہ ہوا

دل نے ایسے اٹھائے رنج و تعب
پھر محبت کا حوصلہ نہ ہوا

جب کسی کی نظر پڑے رخ پر
خال مشکیں سیاہ دانہ ہوا

دیکھی کیفیت بہار و خزاں
میں دو رنگی سے آشنا نہ ہوا

دل شگفتہ ہوا نہ پھولوں سے
کوئی کانٹا گرہ کشا نہ ہوا

گھر بنا کر یہاں یہ تنگ آیا
عقدۂ خاطر آشیانہ ہوا

رشک کا ہے مآل بے رنگی
سبزہ پس کر کبھی حنا نہ ہوا

بحرؔ دل سوچ کر اسے دینا
خود غرض آشنا ہوا نہ ہوا

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse