دار و رسن

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
دار و رسن
by محمد علی تشنہ

عجیب کوچۂ رشک جناں تھا دہلی کا
بہشت کہتے ہیں جس کو مکاں تھا دہلی کا

دماغ بر سر ہفت آسماں تھا دہلی کا
خطاب خطۂ ہندوستاں تھا دہلی کا

غضب ہے اس کو کوئی شادماں نہ دیکھ سکا
زمیں نہ دیکھ سکی آسماں نہ دیکھ سکا

ہزاروں زلف پری وش کے یاں تھے سودائی
ہزاروں میکش و میخوار و مست و صہبائی

شراب عیش پلاتا تھا چرخ مینائی
قبول کرتے تھے اس در پہ سب جبیں سائی

جو آتا تھا سو وہ ہو رہتا تھا اسی گھر کا
زمیں کی ناف ہے کعبہ ہے بطن مادر کا

وہ تخت سلطنت و بارگاہ سلطانی
کہ جس میں بیٹھتے تھے آ کے ظل سبحانی

پروں سے سر پہ ہما کرتا تھا مگس رانی
بجا اس اوج پہ تھا دعویٰ سلیمانی

ہر ایک قصر کو دعویٰ تھا طاق کسریٰ کا
دماغ عرش پہ تھا قلعۂ معلےٰ کا

زحل کی آنکھ پڑی اتفاق سے ناگاہ
تمام ہو گیا تاراج ملک و مال اور جاہ

کہ اس سے ہو گئے بد تر غریب شاہنشاہ
رعیت اس کی ہوئی اس سے بھی زیادہ تباہ

وہ ساہوکار نہ تھا جس کی ساکھ میں بٹا
اب اس کے نام پہ لگتا ہے لاکھ میں بٹا

ملا یہ حکم کہ سب لوگ یاں سے ٹل جائیں
اسی میں خیر ہے جو شہر سے نکل جائیں

دبی ہے بقچی تو دکھلا کے یاں بغل جائیں
جو کچھ ہے چھوڑ یہاں صاحب دول جائیں

نہ سر پہ ٹوپی ہے ان کے نہ پاؤں میں جوتی
بغل میں طوطے کا پنجڑا نبی جی بھیجو جی

یہاں جو آن کی دیکھی تو دار کی صورت
وہ دار کہئے جسے ذوالفقار کی صورت

مٹا دی چشم زدن میں ہزار کی صورت
نظر پڑی نہ کسی بیقرار کی صورت

برنگ تیر شہاب آگ میں جلے لاکھوں
سپرد دار و رسن ہو گئے گلے لاکھوں

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse