دارالمکافات

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
دارالمکافات
by نظیر اکبر آبادی

ہے دنیا جس کا ناؤں میاں یہ اور طرح کی بستی ہے
جو مہنگوں کو یہ مہنگی ہے اور سستوں کو یہ سستی ہے
یاں ہر دم جھگڑے اٹھتے ہیں ہر آن عدالت بستی ہے
گر مست کرے تو مستی ہے اور پست کرے تو پستی ہے
کچھ دیر نہیں اندھیر نہیں انصاف اور عدل پرستی ہے
اس ہاتھ کرو اس ہاتھ ملے یاں سودا دست بہ دستی ہے
جو اور کسی کا مان رکھے تو اس کو بھی ارمان ملے
جو پان کھلا دے پان ملے جو روٹی دے تو نان ملے
نقصان کرے نقصان ملے احسان کرے احسان ملے
جو جیسا جس کے ساتھ کرے پھر ویسا اس کو آن ملے
کچھ دیر نہیں اندھیر نہیں انصاف اور عدل پرستی ہے
اس ہاتھ کرو اس ہاتھ ملے یاں سودا دست بہ دستی ہے
جو اور کسی کی جاں بخشے تو اس کی بھی حق جان رکھے
جو اور کسی کی آن رکھے تو اس کی بھی حق آن رکھے
جو یاں کا رہنے والا ہے یہ دل میں اپنے جان رکھے
یہ ترت پھرت کا نقشہ ہے اس نقشے کو پہچان رکھے
کچھ دیر نہیں اندھیر نہیں انصاف اور عدل پرستی ہے
اس ہاتھ کرو اس ہاتھ ملے یاں سودا دست بہ دستی ہے
جو پار اتارے اوروں کو اس کی بھی پار اترنی ہے
جو غرق کرے پھر اس کو بھی ڈبکوں ڈبکوں کرنی ہے
شمشیر تبر بندوق سناں اور نشتر تیر نہرنی ہے
یاں جیسی جیسی کرنی ہے پھر ویسی ویسی بھرنی ہے
کچھ دیر نہیں اندھیر نہیں انصاف اور عدل پرستی ہے
اس ہاتھ کرو اس ہاتھ ملے یاں سودا دست بہ دستی ہے
جو اوپر اونچا بول کرے تو اس کا بول بھی بالا ہے
اور دے پٹکے تو اس کو بھی کوئی اور پٹکنے والا ہے
بے ظلم و خطا جس ظالم نے مظلوم ذبح کر ڈالا ہے
اس ظالم کے بھی لوہو کا پھر بہتا ندی نالا ہے
کچھ دیر نہیں اندھیر نہیں انصاف اور عدل پرستی ہے
اس ہاتھ کرو اس ہاتھ ملے یاں سودا دست بہ دستی ہے
جو مصری اور کے منہ میں دے پھر وہ بھی شکر کھاتا ہے
جو اور تئیں اب ٹکر دے پھر وہ بھی ٹکر کھاتا ہے
جو اور کو ڈالے چکر میں پھر وہ بھی چکر کھاتا ہے
جو اور کو ٹھوکر مار چلے پھر وہ بھی ٹھوکر کھاتا ہے
کچھ دیر نہیں اندھیر نہیں انصاف اور عدل پرستی ہے
اس ہاتھ کرو اس ہاتھ ملے یاں سودا دست بہ دستی ہے
جو اور کسی کو ناحق میں کوئی جھوٹی بات لگاتا ہے
اور کوئی غریب اور بیچارہ حق نا حق میں لٹ جاتا ہے
وہ آپ بھی لوٹا جاتا ہے اور لاٹھی پاٹھی کھاتا ہے
جو جیسا جیسا کرتا ہے پھر ویسا ویسا پاتا ہے
کچھ دیر نہیں اندھیر نہیں انصاف اور عدل پرستی ہے
اس ہاتھ کرو اس ہاتھ ملے یاں سودا دست بہ دستی ہے
جو اور کی پگڑی لے بھاگے اس کا بھی اور اچکا ہے
جو اور پہ چوکی بٹھلاوے اس پر بھی دھونس دھڑکا ہے
یاں پشتی میں تو پشتی ہے اور دھکے میں یاں دھکا ہے
کیا زور مزے کا جمگھٹ ہے کیا زور یہ بھیڑ بھڑکا ہے
کچھ دیر نہیں اندھیر نہیں انصاف اور عدل پرستی ہے
اس ہاتھ کرو اس ہاتھ ملے یاں سودا دست بہ دستی ہے
ہے کھٹکا اس کے ہاتھ لگا جو اور کسی کو دے کھٹکا
اور غیب سے جھٹکا کھاتا ہے جو اور کسی کے دے جھٹکا
چیرے کے بیچ میں چیرا ہے اور پٹکے بیچ جو ہے پٹکا
کیا کہیے اور نظیرؔ آگے ہے زور تماشا جھٹ پٹکا
کچھ دیر نہیں اندھیر نہیں انصاف اور عدل پرستی ہے
اس ہاتھ کرو اس ہاتھ ملے یاں سودا دست بہ دستی ہے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse