داد ملتی نظر اہل نظر سے پہلے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
داد ملتی نظر اہل نظر سے پہلے
by میرزا الطاف حسین عالم لکھنوی

داد ملتی نظر اہل نظر سے پہلے
موت آتی جو کہیں دل کو جگر سے پہلے

تصفیہ کرتے نہ ہنگام سحر سے پہلے
پوچھ لیتے کسی مایوس نظر سے پہلے

میرا مرنا تمہیں ہو جائے گا خود ہی معلوم
دل تڑپ اٹھے گا سینے میں خبر سے پہلے

تم تو کہتے تھے کہ میں درد کا قائل ہی نہیں
کون چیخا مرے نالوں کے اثر سے پہلے

نام جس چیز کا ہے موت جہاں میں مشہور
واقعہ یہ تو ہوا درد جگر سے پہلے

آج کی رات تو کچھ اور خبر دیتی ہے
ہو مناسب تو چلے آنا سحر سے پہلے

ایک بجلی سی مری آنکھوں کے اندر کوندی
اور ارادہ جو ہوا عزم سفر سے پہلے

روئی مجبوریوں پر چارہ گروں کی قسمت
مر گیا آپ کا بیمار سحر سے پہلے

میں بھی سمجھا ہوں ترے نقش قدم کا مطلب
میں بھی گزرا تھا اسی راہ گزر سے پہلے

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse