خیر لایا تو جنوں دیوار سے در کی طرف

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
خیر لایا تو جنوں دیوار سے در کی طرف
by نیر سلطانپوری

خیر لایا تو جنوں دیوار سے در کی طرف
اب نظر جانے لگی باہر سے اندر کی طرف

کشتئ امید کے ہر بادباں اڑنے لگے
کس نے رخ موڑا ہواؤں کا سمندر کی طرف

یوں بھی ہوتا ہے مدارات جنوں کے شوق میں
پھول جیسے ہاتھ اٹھ جاتے ہیں پتھر کی طرف

ہم نے سمجھے تھے کہ یہ ہوگا مآل کار عشق
رخ کیا باد بہاری نے مرے گھر کی طرف

دی ہے نیرؔ مجھ کو ساقی نے یہ کیسی خاص مے
سب کی نظریں اٹھ رہی ہیں میرے ساغر کی طرف

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse