خیال یار سدا چشم نم کے ساتھ رہا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
خیال یار سدا چشم نم کے ساتھ رہا
by نظیر اکبر آبادی

خیال یار سدا چشم نم کے ساتھ رہا
مرا جو چاہ میں دم تھا وہ دم کے ساتھ رہا

گیا سحر وہ پری رو جدھر جدھر یارو
میں اس کے سایہ صفت ہر قدم کے ساتھ رہا

پھرا جو بھاگتا مجھ سے وہ شوخ آہو چشم
تو میں بھی تھک نہ رہا گو وہ رم کے ساتھ رہا

اکیلا اس کو نہ چھوڑا جو گھر سے نکلا وہ
ہر اک بہانے سے میں اس صنم کے ساتھ رہا

نظیرؔ پیر ہوا تو بھی بار ناز بتاں
کچھ اس کے دوش کے کچھ پشت خم کے ساتھ رہا

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse