خیال نطق سے بیگانہ ہو تو کیا کہئے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
خیال نطق سے بیگانہ ہو تو کیا کہئے  (1938) 
by محمد صادق ضیا

خیال نطق سے بیگانہ ہو تو کیا کہئے
لب خموش ہی افسانہ ہو تو کیا کہئے

میں جانتا ہوں کہ توہین وضع ہے مستی
یہی شریعت مے خانہ ہو تو کیا کہئے

جمال دوست کو دیوانگی سے کیا مطلب
دل اپنے آپ ہی دیوانہ ہو تو کیا کہئے

ہو کوئی اور تو اس سے گلا مناسب ہے
مگر جو دوست ہے بیگانہ ہو تو کیا کہئے

بغیر ساغر مے بھی ہے کیف کا امکان
ترا خیال ہی رندانہ ہو تو کیا کہئے

میں چاہتا ہوں کہوں رنج عشق کی روداد
سلوک حسن حریفانہ ہو تو کیا کہئے

عزیز دل سے زیادہ ہے مجھ کو عصمت راز
ہر اک طرف یہی افسانہ ہو تو کیا کہئے

مذاق بزم کی اصلاح ممکنات سے ہے
فروغ شمع ہی پروانہ ہو تو کیا کہئے

شباب دعوت رنگینیٔ نظر ہے ضیاؔ
مگر نظر ہی فقیہانہ ہو تو کیا کہئے

This work is in the public domain in the United States because it was first published outside the United States (and not published in the U.S. within 30 days), and it was first published before 1989 without complying with U.S. copyright formalities (renewal and/or copyright notice) and it was in the public domain in its home country on the URAA date (January 1, 1996 for most countries).

Public domainPublic domainfalsefalse