Jump to content

خیال میں اک نہ اک مزے کی نئی کہانی ہے اور ہم ہیں

From Wikisource
خیال میں اک نہ اک مزے کی نئی کہانی ہے اور ہم ہیں
by نوح ناروی
331246خیال میں اک نہ اک مزے کی نئی کہانی ہے اور ہم ہیںنوح ناروی

خیال میں اک نہ اک مزے کی نئی کہانی ہے اور ہم ہیں
ابھی تمنا ہے اور دل ہے ابھی جوانی ہے اور ہم ہیں

غریق بحر ستم نہ کیوں ہوں یہ جاں فشانی ہے اور ہم ہیں
کہ آپ ہیں آپ کی چھری ہے چھری کا پانی ہے اور ہم ہیں

دم اخیر اس کو اب نہ سوچیں یہ سوچنا چاہئے تھا پہلے
مآل کیا ہوگا زندگی کا جہان فانی ہے اور ہم ہیں

یہ عشق پر حسن کی عنایت یہ حسن سے عشق کی ارادت
ہماری حسرت ہے اور تو ہے تری جوانی ہے اور ہم ہیں

نگاہ الفت بھی ہو چلی کچھ ستم بھی کرنے لگا وہ ظالم
اگر یہی مہربانیاں ہیں تو کامرانی ہے اور ہم ہیں

ادا نے چھیڑا نظر نے تاکا ستم نے لوٹا غضب نے مارا
زبان جب سے کھلی ہماری یہی کہانی ہے اور ہم ہیں

بقا کا چرچا جہان بھر میں مگر بقا سے جہان خالی
خیال عیش مدام کیسا جہان فانی ہے اور ہم ہیں

ابھی سے توبہ ابھی سے تقویٰ ابھی سے کیا فکر دین و عقبیٰ
نئی امنگیں نئی ترنگیں نئی جوانی ہے اور ہم ہیں

پہنچ پہنچ کر فلک پر آہیں کریں نہ انجم میں کیوں اضافہ
کہ شام سے صبح تک شب غم شرر فشانی ہے اور ہم ہیں

کسے توقع نہ آئیں گے وہ یقیں کسے تھا بلائیں گے وہ
یہ خاص ان کی ہے مہربانی کہ مہربانی ہے اور ہم ہیں

اٹھا ہی دیں گے نقاب اپنی دکھا ہی دیں گے وہ اپنا جلوہ
نبھے گی کب تک یہ لن ترانی یہ لن ترانی ہے اور ہم ہیں

بھرے ہوئے چشم تر میں آنسو جگر میں بھڑکی ہوئی تپ غم
یہ آگ ہے اور یہ ہے پانی یہ آگ پانی ہے اور ہم ہیں

فغاں تو آخر فغاں ہی ٹھہری گلہ تو آخر گلہ ہی ٹھہرا
محال ہے جس میں سانس لینی وہ ناتوانی ہے اور ہم ہیں

نئے شگوفے نہ کیوں کھلائیں جو غنچہ و گل کو دیکھ پائیں
بہار تو ہے چمن کی رانی چمن کی رانی ہے اور ہم ہیں

کبھی تو ہم ہیں یہاں وہاں کے کبھی تصور ادھر ادھر کا
سکون و راحت سے کیا تعلق کہ بد گمانی ہے اور ہم ہیں

جتا چکے درد دل کو اپنے جو اب جتائیں تو کیا جتائیں
کہی ہوئی بھی سنی ہوئی بھی وہی کہانی ہے اور ہم ہیں

بہت سے الفت میں آئے طوفاں رہا کئے نوحؔ بھی پریشاں
مگر وہی پیہم آنسوؤں کی ابھی روانی ہے اور ہم ہیں


This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.