خوں رلاتی ہے تری حسرت دیدار مجھے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
خوں رلاتی ہے تری حسرت دیدار مجھے
by جمیلہ خدا بخش

خوں رلاتی ہے تری حسرت دیدار مجھے
تیری فرقت نے کیا جان سے بیزار مجھے

دیں کے قابل نہ رہا اور نہ رہا دنیا کا
تجھ سے خود کام نے ایسا کیا بیکار مجھے

روح کہتی ہے کہ سو جان سے میں صدقہ ہوں
دل کے پردے میں نظر آیا ہے جب یار مجھے

جس کی چتون کا تو گھائل ہے میں اس کا زخمی
دیکھتی کیا ہے تو اے نرگس بیمار مجھے

عمر آخر ہوئی افسوس بڑی غفلت سے
دم مردن ہی کیا موت نے ہوشیار مجھے

اپنے ہاتھوں سے پھنسا ہوں میں خود ہی آفت میں
حرص دنیا نے کیا بندۂ افکار مجھے

شیخ جی جائیے مسجد میں نہیں جاتا میں
بت کافر نے کیا صاحب زنار مجھے

اک جھلک دور سے دکھلا کے یہ چھینا کیسا
سامنے آ کے دکھا جلوۂ رخسار مجھے

رکھ کے تصویر صنم دل میں عبث کہتے ہو
شیخ ہوں میں بت کافر سے سروکار مجھے

ضبط گریہ مجھے لازم ہے کہ اغیار میں یاں
بزم میں خار نہ کر چشم گہر بار مجھے

بیٹھ کر کوچۂ شہ میں یہ جمیلہؔ نے کہا
غوث کافی ہے ترا سایۂ دیوار مجھے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse