خوگر جور پہ تھوڑی سی جفا اور سہی

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
خوگر جور پہ تھوڑی سی جفا اور سہی
by محمد علی جوہر

خوگر جور پہ تھوڑی سی جفا اور سہی
اس قدر ظلم پہ موقوف ہے کیا اور سہی

خوف غماز عدالت کا خطر دار کا ڈر
ہیں جہاں اتنے وہاں خوف خدا اور سہی

عہد اول کو بھی اچھا ہے جو پورا کر دو
تم وفادار ہو تھوڑی سی وفا اور سہی

جس نے ہنگامہ عدالت کا تری دیکھا ہے
اس گنہ گار کو اک روز جزا اور سہی

کشور کفر میں کعبہ کو بھی شامل کر لو
سیر ظلمات کو تھوڑی سی فضا اور سہی

بندگی میں تری سہتے ہی ہیں لو کی لپٹیں
چند دن کے لیے دوزخ کی ہوا اور سہی

دین و دل جا ہی چکا جان بھی جاتی ہے تو جائے
ترکش کفر میں اک تیر قضا اور سہی

رب عزت کے لیے بھی کوئی رہنے دو خطاب
تم خداوند ہی کہلاؤ خدا اور سہی

حکم حاکم نہ سہی مرگ مفاجات سے کم
مالک الملک پہ ایماں کی سزا اور سہی

ہم وفا کیشوں کا ایماں بھی ہے پروانہ صفت
شمع محفل جو وہ کافر نہ رہا اور سہی

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse