خون دل کا جو کچھ اشکوں سے پتہ ملتا ہے
Appearance
خون دل کا جو کچھ اشکوں سے پتہ ملتا ہے
ہم کو جی کھول کے رونے میں مزا ملتا ہے
ہم سے اس عشق مجازی کی حقیقت پوچھو
کہ یہ بت جب نہیں ملتے تو خدا ملتا ہے
شوق سے کر مجھے پامال مگر یہ تو بتا
خاک میں ملنے سے میرے تجھے کیا ملتا ہے
آج تک ہم کو تو وہ بت نہ ملا پر نہ ملا
کہتے ہیں ڈھونڈنے والے کو خدا ملتا ہے
کند خنجر کی شکایت میں کروں کیوں ناطقؔ
سچ تو یہ ہے کہ مجھے یوں ہی مزا ملتا ہے
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |