خوش ہو اے بخت کہ ہے آج ترے سر سہرا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
خوش ہو اے بخت کہ ہے آج ترے سر سہرا
by مرزا غالب

خوش ہو اے بخت کہ ہے آج ترے سر سہرا
باندھ شہزادہ جواں بخت کے سر پر سہرا
کیا ہی اس چاند سے مکھڑے پہ بھلا لگتا ہے
ہے ترے حسن دل افروز کا زیور سہرا
سر پہ چڑھنا تجھے پھبتا ہے پر اے طرف کلاہ
مجھ کو ڈر ہے کہ نہ چھینے ترا لمبر سہرا
ناؤ بھر کر ہی پروئے گئے ہوں گے موتی
ورنہ کیوں لائے ہیں کشتی میں لگا کر سہرا
سات دریا کے فراہم کیے ہوں گے موتی
تب بنا ہو گا اس انداز کا گز بھر سہرا
رخ پہ دولھا کے جو گرمی سے پسینا ٹپکا
ہے رگ ابر گہر بار سراسر سہرا
یہ بھی اک بے ادبی تھی کہ قبا سے بڑھ جائے
رہ گیا آن کے دامن کے برابر سہرا
جی میں اترائیں نہ موتی کہ ہمیں ہیں اک چیز
چاہیے پھولوں کا بھی ایک مقرر سہرا
جب کہ اپنے میں سماویں نہ خوشی کے مارے
گوندھے پھولوں کا بھلا پھر کوئی کیوں کر سہرا
رخ روشن کی دمک گوہر غلطاں کی چمک
کیوں نہ دکھلاوے فروغ مہ و اختر سہرا
تار ریشم کا نہیں ہے یہ رگ ابر بہار
لائے گا تاب گراں باری گوہر سہرا
ہم سخن فہم ہیں غالبؔ کے طرفدار نہیں
دیکھیں اس سہرے سے کہدے کوئی بڑھ کر سہرا

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse