خوش ہو اے بخت کہ ہے آج ترے سر سہرا
خوش ہو اے بخت کہ ہے آج ترے سر سہرا
باندھ شہزادہ جواں بخت کے سر پر سہرا
کیا ہی اس چاند سے مکھڑے پہ بھلا لگتا ہے
ہے ترے حسن دل افروز کا زیور سہرا
سر پہ چڑھنا تجھے پھبتا ہے پر اے طرف کلاہ
مجھ کو ڈر ہے کہ نہ چھینے ترا لمبر سہرا
ناؤ بھر کر ہی پروئے گئے ہوں گے موتی
ورنہ کیوں لائے ہیں کشتی میں لگا کر سہرا
سات دریا کے فراہم کیے ہوں گے موتی
تب بنا ہو گا اس انداز کا گز بھر سہرا
رخ پہ دولھا کے جو گرمی سے پسینا ٹپکا
ہے رگ ابر گہر بار سراسر سہرا
یہ بھی اک بے ادبی تھی کہ قبا سے بڑھ جائے
رہ گیا آن کے دامن کے برابر سہرا
جی میں اترائیں نہ موتی کہ ہمیں ہیں اک چیز
چاہیے پھولوں کا بھی ایک مقرر سہرا
جب کہ اپنے میں سماویں نہ خوشی کے مارے
گوندھے پھولوں کا بھلا پھر کوئی کیوں کر سہرا
رخ روشن کی دمک گوہر غلطاں کی چمک
کیوں نہ دکھلاوے فروغ مہ و اختر سہرا
تار ریشم کا نہیں ہے یہ رگ ابر بہار
لائے گا تاب گراں باری گوہر سہرا
ہم سخن فہم ہیں غالبؔ کے طرفدار نہیں
دیکھیں اس سہرے سے کہدے کوئی بڑھ کر سہرا
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |