خوش ہوں یا دوست سے خفا ہوں میں

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
خوش ہوں یا دوست سے خفا ہوں میں
by صفی اورنگ آبادی

خوش ہوں یا دوست سے خفا ہوں میں
آج کل کچھ نیا نیا ہوں میں

تم پہ سو جان سے فدا ہوں میں
تم جسے چاہو اس کو چاہوں میں

ہر ادا پر تری فدا ہوں میں
آئنہ بن کے دیکھتا ہوں میں

ان کو یہ آرزو ارے توبہ
میں کہوں آرزو بھرا ہوں میں

اے عطا کوش کر عطائی نظر
اے خطا پوش بے خطا ہوں میں

ابتدا ہی غلط ہے بسم اللہ
اپنا انجام سوچتا ہوں میں

ایک نادان دوست کی خاطر
دشمنوں سے ملا ہوا ہوں میں

کسمپرسی ہے خاک ہونے تک
خاک ہوتے ہی کیمیا ہوں میں

عشق بازی ہے زندہ در گوری
موت سے پہلے مر چکا ہوں میں

کسی صورت بھی کامیاب نہیں
کس نراسے کا مدعا ہوں میں

ہجر میں موسم ہجوم گل
اور دیوانہ بن گیا ہوں میں

مجھ کو کیوں جانتے ہو مستغنی
نہیں بندو نہیں خدا ہوں میں

عشق نے کر دیا نکما سا
اب ترے کام کا بنا ہوں میں

طلب حق ہے ایسے عجز کے ساتھ
جیسا خیرات مانگتا ہوں میں

ابھی سب کچھ ابھی نہیں کچھ بھی
اے صفیؔ کیا بتاؤں کیا ہوں میں

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse