خوشی ہے یہ آنے کی برسات کے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
خوشی ہے یہ آنے کی برسات کے
by مرزا غالب

خوشی ہے یہ آنے کی برسات کے
پییں بادۂ ناب اور آم کھائیں
سر آغاز موسم میں اندھے ہیں ہم
کہ دلی کو چھوڑیں لوہارو کو جائیں
سو اناج کے جو ہے مقلوب جاں
نہ واں آم پائیں نہ انگور پائیں
ہوا حکم باورچیوں کو کہ ہاں
ابھی جا کے پوچھو کہ کل کیا پکائیں
وہ کھٹے کہاں پائیں املی کے پھول
وہ کڑوے کریلے کہاں سے منگائیں
فقط گوشت سو بھیڑ کا ریشے دار
کہو اس کو کیا کھا کے ہم خط اٹھائیں

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse