خوشی ہے سب کو کہ آپریشن میں خوب نشتر یہ چل رہا ہے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
خوشی ہے سب کو کہ آپریشن میں خوب نشتر یہ چل رہا ہے
by اکبر الہ آبادی

خوشی ہے سب کو کہ آپریشن میں خوب نشتر یہ چل رہا ہے
کسی کو اس کی خبر نہیں ہے مریض کا دم نکل رہا ہے

فنا اسی رنگ پر ہے قائم فلک وہی چال چل رہا ہے
شکستہ و منتشر ہے وہ کل جو آج سانچے میں ڈھل رہا ہے

یہ دیکھتے ہو جو کاسۂ سر غرور غفلت سے کل تھا مملو
یہی بدن ناز سے پلا تھا جو آج مٹی میں گل رہا ہے

سمجھ ہو جس کی بلیغ سمجھے نظر ہو جس کی وسیع دیکھے
ابھی یہاں خاک بھی اڑے گی جہاں یہ قلزم ابل رہا ہے

کہاں کا شرقی کہاں کا غربی تمام دکھ سکھ ہے یہ مساوی
یہاں بھی اک بامراد خوش ہے وہاں بھی اک غم سے جل رہا ہے

عروج قومی زوال قومی خدا کی قدرت کے ہیں کرشمے
ہمیشہ رد و بدل کے اندر یہ امر پولٹیکل رہا ہے

مزہ ہے اسپیچ کا ڈنر میں خبر یہ چھپتی ہے پانیر میں
فلک کی گردش کے ساتھ ہی ساتھ کام یاروں کا چل رہا ہے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse