خوشی کیا ہو جو میری بات وہ بت مان جاتا ہے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
خوشی کیا ہو جو میری بات وہ بت مان جاتا ہے
by اکبر الہ آبادی

خوشی کیا ہو جو میری بات وہ بت مان جاتا ہے
مزا تو بے حد آتا ہے مگر ایمان جاتا ہے

بنوں کونسل میں اسپیکر تو رخصت قرأت مصری
کروں کیا ممبری جاتی ہے یا قرآن جاتا ہے

زوال جاہ و دولت میں بس اتنی بات اچھی ہے
کہ دنیا میں بخوبی آدمی پہچان جاتا ہے

نئی تہذیب میں دقت زیادہ تو نہیں ہوتی
مذاہب رہتے ہیں قایم فقط ایمان جاتا ہے

تھئیٹر رات کو اور دن کو یاروں کی یہ اسپیچیں
دہائی لاٹ صاحب کی مرا ایمان جاتا ہے

جہاں دل میں یہ آئی کچھ کہوں وہ چل دیا اٹھ کر
غضب ہے فتنہ ہے ظالم نظر پہچان جاتا ہے

چناں بروند صبر از دل کے قصے یاد آتے ہیں
تڑپ جاتا ہوں یہ سن کر کہ اب ایمان جاتا ہے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse