خوشی سے رنج کا بدلا یہاں نہیں ملتا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
خوشی سے رنج کا بدلا یہاں نہیں ملتا
by فانی بدایونی

خوشی سے رنج کا بدلا یہاں نہیں ملتا
وہ مل گئے تو مجھے آسماں نہیں ملتا

ہزار ڈھونڈیئے اس کا نشاں نہیں ملتا
جبیں ملے تو ملے آستاں نہیں ملتا

مجاز اور حقیقت کچھ اور ہے یعنی
تری نگاہ سے تیرا بیاں نہیں ملتا

بھڑک کے شعلۂ گل تو ہی اب لگا دے آگ
کہ بجلیوں کو مرا آشیاں نہیں ملتا

وہ بدگماں کہ مجھے تاب رنج زیست نہیں
مجھے یہ غم کہ غم جاوداں نہیں ملتا

تری تلاش کافی الجملہ ماحصل یہ ہے
کہ تو یہاں نہیں ملتا وہاں نہیں ملتا

بتا اب اے جرس دور میں کدھر جاؤں
نشان گرد رہ کارواں نہیں ملتا

مجھے بلا کے یہاں آپ چھپ گیا کوئی
وہ میہماں ہوں جسے میزباں نہیں ملتا

تجھے خبر ہے ترے تیر بے پناہ کی خیر
بہت دنوں سے دل ناتواں نہیں ملتا

کسی نے تجھ کو نہ جانا مگر یہ کم جانا
یہ راز ہے کہ کوئی رازداں نہیں ملتا

مجھے عزیز سہی قدر دل تمہیں کیوں ہو
کمی تو دل کی نہیں دل کہاں نہیں ملتا

دیار عمر میں اب قحط مہر ہے فانیؔ
کوئی اجل کے سوا مہرباں نہیں ملتا

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse