Jump to content

خوشیا

From Wikisource
خوشیا (1940)
by سعادت حسن منٹو
325271خوشیا1940سعادت حسن منٹو

خوشیا سوچ رہا تھا۔۔۔

پنواڑی سے کالے تمباکو والا پان لے کر وہ اس کی دکان کے ساتھ اس سنگین چبوترے پر بیٹھا تھا، جو دن کے وقت ٹائروں اور موٹروں کے مختلف پرزوں سے بھرا ہوتا ہے۔ رات کو ساڑھے آٹھ بجے کے قریب موٹر کے پرزے اور ٹائر بیچنے والوں کی یہ دکان بند ہو جاتی ہے۔ اور اس کا سنگین چبوترہ خوشیا کے لیے خالی ہو جاتا ہے۔

وہ کالے تمباکو والا پان آہستہ آہستہ چبا رہا تھا اور سوچ رہا تھا۔ پان کی گاڑھی تمباکو ملی پیک اس کے دانتوں کی ریخوں سے نکل کر اس کے منہ میں ادھر ادھر پھسل رہی تھی۔ اور اسے ایسا لگتا تھا کہ اس کے خیال، دانتوں تلے پس کر اس کی پیک میں گھل رہے ہیں۔ شاید یہی وجہ ہے کہ وہ اسے پھینکنا نہیں چاہتا تھا۔

خوشیا پان کی پیک منہ میں پلپلا رہا تھا۔ اور اس واقعہ پر غور کر رہا تھا جو اس کے ساتھ پیش آیا تھا۔ یعنی آدھ گھنٹہ پہلے۔

وہ اس سنگین چبوترے پر حسبِ معمول بیٹھنے سے پہلے کھیت واڑی کی پانچویں گلی میں گیا تھا۔ منگلور سے جو نئی چھوکری کانتا آئی تھی۔ اسی گلی کے نکڑ پر رہتی تھی۔ خوشیاسے کسی نے کہا تھا کہ وہ اپنا مکان تبدیل کر رہی ہے چنانچہ وہ اسی بات کا پتہ لگانے کے لیے وہاں گیا تھا۔ کانتا کی کھولی کا دروازہ اس نے کھٹکھٹایا۔ اندر سے آواز آئی ’’کون ہے‘‘؟ اس پر خوشیا نے کہا، ’’میں خوشیا‘‘

آواز دوسرے کمرے سے آئی تھی۔ تھوڑی دیر کے بعد دروازہ کھلا خوشیا اندر داخل ہوا۔ جب کانتا نے دروازہ اندر سے بند کیا تو خوشیا نے مڑ کر دیکھا۔ اس کی حیرت کی کوئی انتہا نہ رہی۔ جب اس نے کانتا کو بالکل ننگا دیکھا۔ بالکل ننگا ہی سمجھو۔ کیونکہ وہ اپنے انگ کو صرف ایک تولیے سے چھپائے ہوئے تھی، چھپائے ہوئے بھی نہیں کہا جا سکتا۔ کیونکہ چھپانے کی جتنی چیزیں ہوتی ہیں وہ تو سب کی سب خوشیا کی حیرت زدہ آنکھوں کے سامنے تھیں۔

’’کہو خوشیا کیسے آئے۔۔۔؟ میں بس اب نہانے والی ہی تھی۔ بیٹھو بیٹھو۔۔۔ باہر والے سے اپنے لیے چائے کا تو کہہ آئے ہوتے۔۔۔ جانتے تو ہو وہ مواراما یہاں سے بھاگ گیا ہے۔‘‘

خوشیا جس کی آنکھوں نے کبھی عورت کو یوں، اچانک طور پر ننگا نہیں دیکھا تھا، بہت گھبرا گیا۔ اس کی سمجھ میں نہ آتا تھا کہ کیا کرے؟ اس کی نظریں جو ایک دم عریانی سے دو چار ہو گئی تھیں، اپنے آپ کو کہیں چھپانا چاہتی تھیں۔

اس نے جلدی جلدی صرف اتنا کہا، ’’جاؤ۔۔۔ جاؤ تم نہاؤ، پھر ایک دم اس کی زبان کھل گئی، ’’پر جب تم ننگی تھیں تو دروازہ کھولنے کی کیا ضرورت تھی۔۔۔؟ اندر سے کہہ دیا ہوتا میں پھر آ جاتا۔۔۔ لیکن جاؤ۔۔۔ تم نہا لو۔‘‘

کانتا مسکرائی، ’’جب تم نے کہا خوشیا ہے۔ تو میں نے سوچا۔ کیا ہرج ہے۔ اپنا خوشیا ہی تو ہے آنے دو۔۔۔‘‘

کانتا کی یہ مسکراہٹ ابھی تک خوشیا کے دل و دماغ میں تیر رہی تھی۔ اس وقت بھی کانتا کا ننگا جسم موم کے پتلے کی مانند اس کی آنکھوں کے سامنے کھڑا تھا اور پگھل پگھل کر اس کے اندر جارہا تھا۔

اس کا جسم خوبصورت تھا۔ پہلی مرتبہ خوشیا کو معلوم ہوا کہ جسم بیچنے والی عورتیں بھی ایسا سڈول بدن رکھتی ہیں۔ اس کو اس بات پر حیرت ہوئی تھی۔ پر سب سے زیادہ تعجب اسے اس بات پر ہوا تھا کہ ننگ دھڑنگ وہ اس کے سامنے کھڑی ہو گئی۔ اور اس کو لاج تک نہ آئی۔ کیوں؟ اس کا جواب کانتا نے یہ دیا تھا، ’’جب تم نے کہا خوشیا ہے۔ تو میں نے سوچا کیا ہرج ہے اپنا خوشیا ہی تو ہے۔۔۔ آنے دو۔‘‘

کانتا اور خوشیا ایک ہی پیشے میں شریک تھے۔ وہ اس کا دلال تھا۔ اس لحاظ سے وہ اسی کا تھا۔۔۔ پر یہ کوئی وجہ نہیں تھی کہ وہ اس کے سامنے ننگی ہو جاتی۔ کوئی خاص بات تھی۔ کانتا کے الفاظ میں خوشیا کوئی اور ہی مطلب کرید رہا تھا۔ یہ مطلب بیک وقت اس قدر صاف اور اس قدر مبہم تھا کہ خوشیا کسی خاص نتیجے پر نہیں پہنچ سکا تھا۔

اس وقت بھی وہ کانتا کے ننگے جسم کو دیکھ رہا تھا، جو ڈھولکی پر منڈھے ہوئے چمڑے کی طرح تنا ہوا تھا۔ اس کی لڑھکتی ہوئی نگاہوں سے بالکل بے پروا! کئی بار حیرت کے عالم میں بھی اس نے اس کے سانولے سلونے بدن پر ٹوہ لینے والی نگاہیں گاڑی تھیں مگر اس کا ایک رواں تک بھی نہ کپکپایا تھا۔ بس سانولے پتھر کی مورتی کی مانند کھڑی رہی۔ جو احساس سے عاری ہو۔

’’بھئی! ایک مرد اس کے سامنے کھڑا تھا۔۔۔ مرد جس کی نگاہیں کپڑوںمیں بھی عورت کے جسم تک پہنچ جاتی ہیں اور جو پر ماتما جانے خیال ہی خیال میں کہاں کہاں پہنچ جاتا ہے۔ لیکن وہ ذرا بھی نہ گھبرائی اور۔۔۔ اور اس کی آنکھیں ایسا سمجھ لو کہ ابھی لانڈری سے دُھل کر آئی ہیں۔۔۔ اس کو تھوڑی سی لاج تو آنی چاہیے تھی۔ ذرا سی سرخی تو اس کے دیدوں میں پیدا ہونی چاہیے۔ مان لیاکسبی تھی۔ پر کسبیاں یوں ننگی تو نہیں کھڑی ہوجاتیں۔‘‘

دس برس اس کو دلالی کرتے ہو گئے تھے۔ اور ان دس برسوں میں وہ پیشہ کرانے والی لڑکیوں کے تمام رازوں سے واقف ہو چکا تھا۔ مثال کے طور پر اسے یہ معلوم تھا کہ پائے دھونی کے آخری سرے پر جو چھوکری ایک نوجوان لڑکے کو بھائی بنا کر رہتی ہے، اس لیے ’اچھوت کنیا‘ کا ریکارڈ ’کاہے کرتا مورکھ پیار، پیار،پیار‘ اپنے ٹوٹے ہوئے باجے پر بجایا کرتی ہے کہ اسے اشوک کمار سے بہت بری طرح عشق ہے۔ کئی من چلے لونڈے اشوک کمار سے اس کی ملاقات کرانے کا جھانسہ دے کر اپنا اُلّو سیدھا کر چکے تھے۔ اسے یہ بھی معلوم تھا کہ دادر میں جو پنجابن رہتی ہے صرف اس لیے کوٹ پتلون پہنتی ہے کہ اس کے ایک یار نے اس سے کہا تھا کہ تیری ٹانگیں تو بالکل اس انگریز ایکٹرس کی طرح ہیں جس نے ’مراکو عرف خونِ تمنّا‘ میں کام کیا تھا۔ یہ فلم اس نے کئی بار دیکھی اور جب اس کے یار نے کہا کہ مارلین ڈیٹرچ اس لیے پتلون پہنتا ہے کہ اس کی ٹانگیں بہت خوبصورت ہیں، اور ان ٹانگوں کا اس نے دو لاکھ کا بیمہ کرا رکھا ہےتو اس نے بھی پتلون پہننی شروع کر دی۔ جو اس کے چوتڑوں میں بہت پھنس کر آتی تھی۔ اور اسے یہ بھی معلوم تھا کہ ’مز گاؤں‘ والی دکھشنی چھوکری صرف اس لیے کالج کے خوبصورت لونڈوں کو پھانستی ہے کہ اسے ایک خوبصورت بچے کی ماں بننے کا شوق ہے۔ اس کو یہ بھی پتہ تھا کہ وہ کبھی اپنی خواہش پوری نہ کر سکے گی، اس لیے کہ بانجھ ہے۔ اور اس کالی مدراسن کی بابت جو ہر وقت کانوں میں ہیرے کی بوٹیاں پہنے رہتی تھی اس کو یہ بات اچھی طرح معلوم تھی کہ اس کا رنگ کبھی سفید نہیں ہو گا۔ اور وہ ان دواؤں پر بیکار روپیہ برباد کر رہی ہے جو آئے دن خریدتی رہتی ہے۔

اس کو ان تمام چھوکریوں کا اندر باہر کا حال معلوم تھاجو اس کے حلقے میں شامل تھیں۔ مگر اس کو یہ خبر نہ تھی کہ ایک روز کانتا کماری جس کا اصلی نام اتنا مشکل تھا کہ وہ عمر بھر یاد نہیں کر سکتا تھا، اس کے سامنے ننگی کھڑی ہو جائے گی۔ اور اس کو زندگی کے سب سے بڑے تعجب سے دوچار کرائے گی۔

سوچتے سوچتے اس کے منہ میں پان کی پیک اس قدر جمع ہو گئی تھی کہ اب وہ مشکل سے چھا لیا کے ان ننھے ننھے ریزوں کو چبا سکتا تھا جو اس کے دانتوں کی ریخوں میں سے ادھر ادھر پھسل کر نکل جاتے تھے۔

اس کے تنگ ماتھے پر پسینے کی ننھی ننھی بوندیں نمودار ہو گئی تھیں جیسے ململ میں پنیر کو آہستہ سے دبا دیا گیا ہے۔۔۔ اس کے مردانہ وقار کو دھکا سا پہنچتا تھا جب وہ کانتا کے ننگے جسم کو اپنے تصور میں لاتا تھا۔ اسے محسوس ہوتا تھاجیسے اس کا اپمان ہوا ہے۔

ایک دم اس نے اپنے دل میں کہا، ’’بھئی یہ اپمان نہیں ہے تو کیا ہے۔۔۔ یعنی ایک چھوکری ننگ دھڑنگ سامنے کھڑی ہو جاتی ہے۔ اور کہتی ہے اس میں حرج ہی کیا ہے۔۔۔؟ تم خوشیا ہی تو ہو۔۔۔ خوشیا نہ ہوا، سالا وہ بلا ہو گیا جو اُس کے بستر پر ہر وقت اونگھتا رہتا ہے۔۔۔ اور کیا؟‘‘

اب اسے یقین ہونے لگا کہ سچ مچ اس کی ہتک ہوئی ہے۔ وہ مرد تھا۔ اور اس کو اس بات کی غیر محسوس طریق پر توقع تھی کہ عورتیں خواہ شریف ہوں یا بازاری اس کو مرد ہی سمجھیں گی۔ اور اس کے اور اپنے درمیان وہ پردہ قائم رکھیں گی جو ایک مدت سے چلا آ رہا ہے۔ وہ تو صرف یہ پتہ لگانے کے لیے کانتا کے یہاں گیا تھا کہ وہ کب مکان تبدیل کر رہی ہے؟ اور کہاں جا رہی ہے؟ کانتا کے پاس اس کا جانا یکسر بزنس سے متعلق تھا۔ اگر خوشیا کانتا کی بابت سوچتا کہ جب وہ اس کا دروازہ کھٹکھٹائے گاتو وہ اندر کیا کر رہی ہوگی تواس کے تصّور میں زیادہ سے زیادہ اتنی باتیں آ سکتی تھیں۔

سر پر پٹی باندھے لیٹ رہی ہو گی۔

بّلے کے بالوں میں سے پِسّو نکال رہی ہو گی۔

اس بال صفا پوڈر سے اپنی بغلوں کے بال اڑا رہی ہو گی جو اتنی باس مارتا تھا کہ خوشیا کی ناک برداشت نہیں کر سکتی تھی۔

پلنگ پر اکیلی بیٹھی تاش پھیلائے پیشنس کھیلنے میں مشغول ہو گی۔

بس اتنی چیزیں تھیں جو اس کے ذہن میں آتیں۔ گھر میں وہ کسی کو رکھتی نہیں تھی۔ اس لیے اس بات کا خیال ہی نہیں آ سکتا تھا۔ پر خوشیا نے تو یہ سوچا ہی نہیں تھا۔ وہ تو کام سے وہاں گیا تھاکہ اچانک کانتا۔۔۔ یعنی کپڑے پہننے والی کانتا۔۔۔ مطلب یہ کہ وہ کانتا جس کو وہ ہمیشہ کپڑوں میں دیکھا کرتا تھا، اس کے سامنے بالکل ننگی کھڑی ہو گئی۔۔۔ بالکل ننگی ہی سمجھو۔ کیونکہ ایک چھوٹا سا تولیہ سب کچھ تو چھپا نہیں سکتا۔ خوشیا کو یہ نظارہ دیکھ کر ایسا محسوس ہوا تھا جیسے چھلکا اس کے ہاتھ میں رہ گیا ہے اور کیلے کا گوداپُرچ کر کے اس کے سامنے آ گرا ہے۔ نہیں اسے کچھ اور ہی محسوس ہوا تھا۔ جیسے۔۔۔ جیسے وہ خود ننگا ہوگیا ہے۔ اگر بات یہاں تک ہی ختم ہو جاتی تو کچھ بھی نہ ہوتا۔ خوشیا اپنی حیرت کو کسی نہ کسی حیلے سے دور کر دیتا۔ مگر یہاں مصیبت یہ آن پڑی تھی کہ اس لونڈیا نے مسکرا کر یہ کہا تھا، ’’جب تم نے کہا۔ خوشیا ہے تو میں نے سوچا اپنا خوشیا ہی تو ہے آنے دو‘‘۔۔۔ یہ بات اسے کھائے جا رہی تھی۔

’’سالی مسکرا رہی تھی۔۔۔‘‘ وہ بار بار بڑبڑاتا جس طرح کانتا ننگی تھی اسی طرح اس کی مسکراہٹ خوشیا کو ننگی نظر آئی تھی۔ یہ مسکراہٹ ہی نہیں اسے کانتا کا جسم بھی اس حد تک نظر آیا تھاگویا اس پر رندا پھرا ہوا ہے۔

اسے بار بار بچپن کے وہ دن یاد آ رہے تھے جب پڑوس کی ایک عورت اس سے کہا کرتی تھی، ’’خوشیا بیٹا جا دوڑ کے جا، یہ بالٹی پانی سے بھر لا۔ جب وہ بالٹی بھرکے لایا کرتا تھا تو وہ دھوتی سے بنائے پردے کے پیچھے سے کہا کرتی تھی۔‘‘ اندر آکے یہاں میرے پاس رکھ دے۔ میں نے منہ پر صابن ملا ہوا ہے۔ مجھے کچھ سجھائی نہیں دیتا۔‘‘ وہ دھوتی کا پردہ ہٹا کر بالٹی اس کے پاس رکھ دیا کرتا تھا۔ اس وقت صابن کے جھاگ میں لپٹی ہوئی ننگی عورت اسے نظر آیا کرتی تھی مگر اس کے دل میں کسی قسم کا ہیجان پیدا نہیں ہوتا تھا۔

’’بھئی میں اس وقت بچہ تھا۔ بالکل بھولا بھالا۔ بچے اور مرد میں بہت فرق ہوتا ہے۔ بچوں سے کون پردہ کرتا ہے۔ مگر اب تو میں پورا مرد ہوں۔ میری عمر اس وقت اٹھائیس برس کے قریب ہے۔ اور اٹھائیس برس کے جوان آدمی کے سامنے تو کوئی بوڑھی عورت بھی ننگی کھڑی نہیں ہوتی۔‘‘

کانتا نے اسے کیا سمجھا تھا۔ کیا اس میں وہ تمام باتیں نہیں تھیں جو ایک نوجوان مرد میں ہوتی ہیں؟ اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ کانتا کو یک بیک ننگ دھڑنگ دیکھ کر بہت گھبرایا تھا لیکن چور نگاہوں سے کیا اس نے کانتا کی ان چیزوں کا جائزہ نہیں لیا جو روزانہ استعمال کے باوجود اصلی حالت پر قائم تھیں۔ اور کیا تعجب کے ہوتے ہوئے اس کے دماغ میں یہ خیال نہیں آیا تھا کہ دس روپے میں کانتا بالکل مہنگی نہیں۔ اور دسہرے کے روز بنک کا وہ منشی جو دو روپے کی رعایت نہ ملنے پر واپس چلا گیا تھا، بالکل گدھا تھا۔۔۔؟ اور۔۔۔ ان سب کے اوپر، کیا ایک لمحے کے لیے اس کے تمام پٹھوں میں ایک عجیب قسم کا کھنچاؤ پیدا نہیں ہو گیا تھا۔ اور اس نے ایک ایسی انگڑائی نہیں لینا چاہی تھی جس سے اس کی ہڈیاں چٹخنے لگیں۔۔۔؟ پھر کیا وجہ تھی کہ منگلور کی اس سانولی چھوکری نے اس کو مرد نہ سمجھا اور صرف۔۔۔ صرف خوشیا سمجھ کر اس کو اپنا سب کچھ دیکھنے دیا؟

اس نے غصّے میں آکر پان کی گاڑھی پیک تھوک دی جس نے فٹ پاتھ پر کئی بیل بوٹے بنا دیے۔ پیک تھوک کر وہ اٹھا اور ٹرام میں بیٹھ کر اپنے گھر چلا گیا۔

گھر میں اس نے نہا دھو کر نئی دھوتی پہنی۔ جس بلڈنگ میں رہتا تھا اس کی ایک دکان میں سیلون تھا۔ اس کے اندر جا کر اس نے آئینے کے سامنے اپنے بالوں میں کنگھی کی۔ پھر فوراً ہی کچھ خیال آیاتو کرسی پر بیٹھ گیا۔ اور بڑی سنجیدگی سے اس نے داڑھی مونڈنے کے لیے حجام سے کہا، ’’آج چونکہ وہ دوسری مرتبہ داڑھی منڈوا رہا تھا۔ اس لیے حجام نے کہا،’’ ارے بھئی خوشیا بھول گئے کیا؟ صبح میں نے ہی تو تمہاری داڑھی مونڈی تھی اس پر خُوشیا نے بڑی متانت سے داڑھی پر الٹا ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا، ’’کھونٹی اچھی طرح نہیں نکلی۔۔۔‘‘

اچھی طرح کھونٹی نکلوا کر اور چہرے پر پوڈر ملوا کر وہ سیلون سے باہر نکلا۔ سامنے ٹیکسیوں کا اڈا تھا۔ بمبئی کے مخصوص انداز میں اس نے ’چھی چھی‘ کرکے ایک ٹیکسی ڈرائیور کو اپنی طرف متوجہ کیا۔ اور انگلی کے اشارے سے اسے ٹیکسی لانے کے لیے کہا۔ جب وہ ٹیکسی میں بیٹھ گیا تو ڈرائیور نے مڑ کر اس سے پوچھا، ’’کہاں جانا ہے صاحب؟‘‘

ان چار لفظوں نے اور خاص طور پر ’صاحب‘ نے خوشیا کو بہت مسرور کیا۔ مسکرا کر اس نے بڑے دوستانہ لہجہ میں جواب دیا، ’بتائیں گے، پہلے تم آپرا ہاؤس کی طرف چلو۔۔۔ لیمنگٹن روڈ سے ہوتے ہوئے۔۔۔ سمجھیے!‘ ڈرائیور نے میٹر کی لال جھنڈی کا سر نیچے دبا دیا۔ ٹن ٹن ہوئی اور ٹیکسی نے لیمنگٹن روڈ کا رخ کیا۔ لیمنگٹن روڈ کا جب آخری سرا آ گیا تو خوشیا نے ڈرائیور کو ہدایت دی، ’’بائیں ہاتھ موڑ لو۔‘‘

ٹیکسی بائیں ہاتھ مڑ گئی۔ ابھی ڈرائیور نے گیئر بھی نہ بدلا تھا کہ خوشیا نے کہا، ’’یہ سامنے والے کھمبے کے پاس روک لینا ذرا۔‘‘ ڈرائیور نے عین کھمبے کے پاس ٹیکسی کھڑی کر دی۔ خوشیا دروازہ کھول کر باہر نکلا۔ اور ایک پان والے کی دکان کی طرف بڑھا۔ یہاں سے اس نے ایک پان لیا۔ اور اس آدمی سے جو کہ دکان کے پاس کھڑا تھا،چند باتیں کیں۔ اور اسے اپنے ساتھ ٹیکسی میں بٹھاکر ڈرائیور سے کہا، ’’سیدھے لے چلو۔‘‘

دیر تک ٹیکسی چلتی رہی۔ خوشیا نے جدھر اشارہ کیا، ڈرائیور نے ادھر ہینڈل پھرا دیا۔ مختلف پُررونق بازاروں میں سے ہوتے ہوئے ٹیکسی ایک نیم روشن گلی میں داخل ہوئی۔ جس میں آمدورفت بہت کم تھی۔ کچھ لوگ سڑک پر بستر جمائے لیٹے تھے۔ ان میں سے کچھ بڑے اطمینان سے چمپی کرا رہے تھے۔ جب ٹیکسی ان چمپی کرانے والوں کے آگے گئی۔ اور ایک کاٹھ کے بنگلہ نما مکان کے پاس پہنچی تو خوشیا نے ڈرائیور کو ٹھہرنے کے لیے کہا۔ ’’بس اب یہاں رک جاؤ‘‘۔ ٹیکسی ٹھہر گئی تو خوشیا نے اس آدمی سے جس کو وہ پان والے کی دکان سے اپنے ساتھ لیا تھا۔ آہستہ سے کہا، ’’جاؤ۔۔۔ میں یہاں انتظار کرتا ہوں۔‘‘ وہ آدمی بیوقوفوں کی طرح خوشیا کی طرف دیکھتا ہوا ٹیکسی سے باہر نکلااور سامنے والے چوبی مکان میں داخل ہو گیا۔

خوشیا جم کر ٹیکسی کے گدے پر بیٹھ گیا۔ ایک ٹانگ دوسری ٹانگ پر رکھ کر اس نے جیب سے بیڑی نکال کر سلگائی اور ایک دو کش لے کر باہر پھینک دی۔ وہ بہت مضطرب تھا۔ اس لیے اسے ایسا لگاکہ ٹیکسی کا انجن بند نہیں ہوا ۔اس کے سینے میں چونکہ پھڑپھڑاہٹ سی ہو رہی تھی اس لیے وہ سمجھا کہ ڈرائیور نے بل بڑھانے کی غرض سے پٹرول چھوڑ رکھا ہے چنانچہ اس نے تیزی سے کہا، ’’یوں بیکار انجن چالو رکھ کر تم کتنے پیسے اور بڑھا لو گے؟‘‘

ڈرائیور نے مڑ کر خوشیا کی طرف دیکھا اور کہا، ’’سیٹھ انجن تو بند ہے۔‘‘

جب خوشیا کو اپنی غلطی کا احساس ہواتو اس کا اضطراب اور بھی بڑھ گیا اور اس نے کچھ کہنے کے بجائے اپنے ہونٹ چبانے شروع کر دیے۔ پھر ایک ایکی سرے پر وہ کشتی نما کالی ٹوپی پہن کر جو اب تک اس کی بغل میں دبی ہوئی تھی، اس نے ڈرائیور کا شانہ ہلایا اور کہا، ’’دیکھو، ابھی ایک چھوکری آئے گی۔ جونہی اندر داخل ہو تم موٹر چلا دینا۔۔۔ مجھے۔۔۔ گھبرانے کی کوئی بات نہیں ہے۔ معاملہ ایسا ویسا نہیں۔‘‘

اتنے میں سامنے چوبی مکان سے دو آدمی باہر نکلے۔ آگے آگے خوشیا کا دوست تھا اور اس کے پیچھے کا نتا، جس نے شوخ رنگ کی ساڑھی پہن رکھی تھی۔ خوشیا جھٹ اس طرف کو سرک گیا جدھر اندھیرا تھا۔ خوشیا کے دوست نے ٹیکسی کا دروازہ کھولا اور کانتا کو اندر داخل کرکے دروازہ بند کر دیا۔ فوراً ہی کانتا کی حیرت بھری آواز سنائی دی جو چیخ سے ملتی جلتی تھی، ’’خوشیا تم‘‘

’’ہاں میں۔۔۔ لیکن تمہیں روپے مل گئے ہیں نا‘‘؟ خوشیا کی موٹی آواز بلند ہوئی۔ ’’دیکھو ڈرائیور۔۔۔ جو ہولے چلو۔‘‘

ڈرائیور نے سلف دبایا۔ انجن پھڑپھڑانا شروع ہوا۔ وہ بات جو کانتا نے کہی، سنائی نہ دےسکی۔ ٹیکسی ایک دھچکے کے ساتھ آگے بڑھی اور خوشیا کے دوست کو سڑک کے بیچ حیرت زدہ چھوڑ کر نیم روشن گلی میں غائب ہو گئی۔

اس کے بعد کسی نے خوشیا کو موٹروں کی دکان کے سنگین چبوترے پر نہیں دیکھا۔


This work is now in the public domain in Pakistan because it originates from Pakistan and its term of copyright has expired. According to Pakistani copyright laws, all photographs enter the public domain fifty years after they were published, and all non-photographic works enter the public domain fifty years after the death of the creator.