خوشا بیداد خون حسرت بیداد ہوتا ہے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
خوشا بیداد خون حسرت بیداد ہوتا ہے
by جگر مراد آبادی

خوشا بیداد خون حسرت بیداد ہوتا ہے
ستم ایجاد کرتے ہو کرم ایجاد ہوتا ہے

بظاہر کچھ نہیں کہتے مگر ارشاد ہوتا ہے
ہم اس کے ہیں جو ہم پر ہر طرح برباد ہوتا ہے

مرے ناشاد رہنے پر وہ جب ناشاد ہوتا ہے
بتاؤں کیا جو میرا عالم فریاد ہوتا ہے

یہی ہے راز آزادی جہاں تک یاد ہوتا ہے
کہ نظریں قید ہوتی ہیں تو دل آزاد ہوتا ہے

دل عاشق بھی کیا مجموعۂ اضداد ہوتا ہے
ادھر آباد ہوتا ہے ادھر برباد ہوتا ہے

وہ ہر اک واقعہ جو صورت افتاد ہوتا ہے
کبھی پہلے بھی دیکھا تھا کچھ ایسا یاد ہوتا ہے

بڑی مشکل سے پیدا ایک وہ آدم زاد ہوتا ہے
جو خود آزاد جس کا ہر نفس آزاد ہوتا ہے

نگاہیں کیا کہ پہروں دل بھی واقف ہو نہیں سکتا
زبان حسن سے ایسا بھی کچھ ارشاد ہوتا ہے

تمہیں ہو طعنہ زن مجھ پر تمہیں انصاف سے کہہ دو
کوئی اپنی خوشی سے خانماں برباد ہوتا ہے

یہ مانا ننگ پابندی سے کیا آزاد کو مطلب
مگر وہ شرم آزادی سے بھی آزاد ہوتا ہے

تصور میں ہے کچھ ایسا تری تصویر کا عالم
کہ جیسے اب لب نازک سے کچھ ارشاد ہوتا ہے

کوئی حد ہی نہیں شاید محبت کے فسانے کی
سناتا جا رہا ہے جس کو جتنا یاد ہوتا ہے

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse