خورشید فراق میں تپاں ہے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
خورشید فراق میں تپاں ہے
by امداد علی بحر

خورشید فراق میں تپاں ہے
اے ذرہ نواز تو کہاں ہے

کیوں روتے ہیں دیکھ دیکھ کر ہم
یہ زلف سیہ ہے یا دھواں ہے

منہ دیکھ رہا ہوں اور چپ ہوں
کیا بات کروں وہ بد زباں ہے

اب منت باغباں عبث ہے
پت جھڑ کے دن آ گئے خزاں ہے

گلزار نہیں مقام عشرت
بلبل پہ جفائے باغباں ہے

گل کو بھی ہی کچھ غم نہاں نے
غنچے کی چٹک نہیں فغاں ہے

گردوں نے ہی سب کو مار رکھا
جو زندہ بھی ہے وہ نیم جاں ہے

یہ کاہکشاں نہیں سروں پر
کھینچے ہوئے تیغ آسماں ہے

کیا قیس سے ملتفت ہو لیلیٰ
ننگا ہے وہ ننگ خانداں ہے

پروانے سے شمع کیا چھپے گی
میں بھی پوچھوں گا تو جہاں ہے

دیکھا اے بحرؔ تیرا دیوان
اک دفتر حال عاشقاں ہے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse