خورشید رو کے مہر کی جس پر نگاہ ہو

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
خورشید رو کے مہر کی جس پر نگاہ ہو
by عشق اورنگ آبادی

خورشید رو کے مہر کی جس پر نگاہ ہو
طالع اسی کا خلق میں رخشندہ ماہ ہو

دشمن ہیں دین و دل کے بتاں دیکھ بے خبر
اس طرح کیجو ربط کہ جس میں نباہ ہو

ہرگز نہ عیب حسن کہے کس کے منہ پہ صاف
کر آئینہ مرا دل روشن نگاہ ہو

رہتا ہے دل تو اس کے زنخداں کے چاہ بیچ
نیں ہے بعید اس کو بھی گر دل کی چاہ ہو

آساں صراط حشر سے ہو ایک پل میں پار
گر ساتھ عشق عاصیؔ کے فضل الہ ہو

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse