خورشید رو کی صحبت جو اب نہیں تو پھر کب

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
خورشید رو کی صحبت جو اب نہیں تو پھر کب
by عشق اورنگ آبادی

خورشید رو کی صحبت جو اب نہیں تو پھر کب
شبنم کی طرح قربت جو اب نہیں تو پھر کب

ذرے کی طرح مجھ پر اک مہر کی نظر کر
دیکھے وہ مہر طلعت جو اب نہیں تو پھر کب

جوڑا ہے زعفرانی اس گل بدن کے بر میں
خوش ہو مری طبیعت جو اب نہیں تو پھر کب

آلودہ دامنی کو دھونے کو منتظر ہوں
بارش دے ابر رحمت جو اب نہیں تو پھر کب

اس باغ میں دو روزہ ہے عشق زندگانی
گل کی طرح بشاشت جو اب نہیں تو پھر کب

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse