خود فریب
ہم نیوپیرس اسٹور کے پرائیویٹ کمرے میں بیٹھے تھے۔ باہر ٹیلی فون کی گھنٹی بجی تو اس کا مالک غیاث اٹھ کر دوڑا۔ میرے ساتھ مسعود بیٹھا تھا، اس سے کچھ دور ہٹ کر جلیل دانتوں سے اپنی چھوٹی چھوٹی انگلیوں کے ناخن کاٹ رہا تھا، اس کے کان بڑے غور سے غیاث کی باتیں سن رہے تھے وہ ٹیلی فون پر کسی سے کہہ رہا تھا، ’’تم جھوٹ بولتی ہو۔۔۔ اچھا خیر آج دیکھ لیں گے۔۔۔ تو یہ کیا کہا، تمہارے لیے تو ہماری جان حاضر ہے۔۔۔ اچھا تو ٹھیک پانچ بجے۔۔۔ خدا حافظ۔۔۔ کیا کہا۔۔۔؟ بھئی کہہ تو دیا کہ تمہیں مل جائے گی۔۔۔‘‘
جلیل نے میری طرف دیکھا، ’’منٹو صاحب عیش کرتا ہے یہ غیاث!‘‘ میں جواب میں مسکرا دیا۔ جلیل انگلیوں کے ناخن اب تیزی سے کاٹنے لگا، ’’کئی لڑکیوں کے ساتھ اس کا ٹانکہ ملا ہوا ہے۔۔۔ میں تو سوچتا ہوں ایک اسٹور کھول لوں۔۔۔ لیڈیز اسٹور۔۔۔ خواہ مخواہ پریس کے چکر میں پڑا ہوں۔۔۔ عورت کا سایہ تک بھی وہاں نہیں آتا۔ سارا دن گڑگڑاہٹیں سنو۔ الو کے پٹھے قسم کے گاہکوں سے مغز ماری کرو۔۔۔ یہ زندگی ہے؟‘‘
میں پھر مسکرا دیا۔ اتنے میں غیاث آگیا۔ جلیل نے زور سے اس کے چوتڑوں پر دھپا مارا اور کہا، ’’سنابے، کون تھی یہ جس کے لیے تو اپنی جان حاضر کررہا تھا۔‘‘ غیاث بیٹھ گیا اور کہنے لگا، ’’منٹو صاحب کے سامنے ایسی باتیں نہ کیا کرو۔‘‘ جلیل نے اپنی عینک کے موٹے شیشوں میں سے گھور کرغیاث کی طرف دیکھا اور کہا، ’’منٹو صاحب کو سب معلوم ہے۔۔۔ تم بتاؤ کون تھی؟‘‘
غیاث نے اپنی نیلے شیشے والی عینک اتار کر اس کی کمانی ٹھیک کرنی شروع کی،’’ایک نئی ہے۔۔۔ پرسوں آئی تھی، ٹیلی فون کرنے۔۔۔ کسی سے ہنس ہنس کے باتیں کررہی تھی۔ فون کرچکی تومیں نے اس سے کہا، جناب فیس ادا کیجیے۔ یہ سن کر مسکرنے لگی۔ پرس میں ہاتھ ڈال کر اس نے دس روپے کا نوٹ نکالا اورکہا، ’’حاضر ہے۔‘‘ میں نے کہا، ’’شکریہ۔۔۔ آپ کا مسکرا دینا ہی کافی ہے۔۔۔ بس دوستی ہوگئی۔ایک گھنٹے تک یہاں بیٹھی رہی، جاتے ہوئے دس رومال لے گئی۔‘‘
مسعود جو بالکل خاموش تھا،غالباً اپنی بے کاری کے متعلق سوچ رہا تھا، اٹھا، ’’بکواس ہے۔۔۔ محض خود فریبی ہے۔‘‘ یہ کہہ کر اس نے مجھے سلام کیا اور چلا گیا۔ غیاث اپنی باتوں سے بہت خوش تھا۔ مسعود جب یکلخت بولا تو اس کا چہرہ کسی قدر مرجھا گیا۔ جلیل تھوڑی دیر کے بعد غیاث سے مخاطب ہوا، ’’کیا مانگ رہی تھی؟‘‘ غیاث چونکا، ’’کیا کہا؟‘‘ جلیل نے پھر پوچھا، ’’کیا مانگ رہی تھی؟‘‘ غیاث نے کچھ توقف کے بعد کہا، ’’میڈن فورم بریسٹر‘‘ جلیل کی آنکھیں عینک کے موٹے شیشوں کے عقب سے چمکیں۔
’’سائز کیا ہے۔‘‘ غیاث نے جواب دیا ’’تھرٹی فور!‘‘ جلیل مجھ سے مخاطب ہوا، ’’منٹو صاحب یہ کیا بات ہے انگیا دیکھتے ہی میرے اندرہیجان سا پیدا ہو جاتا ہے۔‘‘ میں نے مسکرا کر اس سے کہا، ’’آپ کی قوت متخیلہ بہت تیز ہے۔‘‘ جلیل کچھ نہ سمجھا اور نہ وہ سمجھناچاہتا تھا۔ اس کے دماغ میں کھدبد ہورہی تھی۔ وہ اس لڑکی کے متعلق باتیں کرنا چاہتا تھا جس کے ساتھ غیاث نے ٹیلی فون پرباتیں کی تھیں۔ چنانچہ میرا جواب سن کر نے اس غیاث سے کہا، ’’یار ہم سے بھی تو ملاؤ اسے۔‘‘ غیاث نے کمانی ٹھیک کرکے عینک لگائی، ’’کبھی یہاں آئے گی تو مل لینا۔‘‘
’’کچھ نہیں یار تم ہمیشہ یہی غچہ دیتے رہتے ہو۔۔۔ پچھلے دنوں جب وہ یہاں آئی تھی۔۔۔ کیا نام تھا اس کا۔۔۔؟ جمیلہ۔۔۔ میں نے آگے بڑھ کر اس سے بات کرنی چاہی تو تم نے ہاتھ جوڑ کر مجھے منع کردیا۔۔۔ میں اسے کھا تو نہ جاتا۔‘‘ یہ کہہ کر جمیل نے عینک کے موٹے شیشوں کے پیچھے اپنی آنکھیں سکوڑ لیں۔
جلیل اور غیاث دونوں میں بچپنا تھا۔ دونوں ہر وقت لڑکیوں کے متعلق سوچتے رہتے تھے، خوبصورت، موٹی، دبلی، بھدی لڑکیوں کے متعلق۔۔۔ ٹانگے میں بیٹھی ہوئی لڑکیوں کے متعلق۔ ۔۔پیدل چلتی اور سائیکل سوار لڑکیوں کے متعلق۔ جلیل اس معاملے میں غیاث سے بازی لے گیا تھا۔ دفتر سے کسی ضروری کام پر موٹر میں نکلتا،راستے میں کوئی ٹانگے میں بیٹھی یا موٹر میں سوار لڑکی نظر آجاتی تو اس کے پیچھے اپنی موٹر لگا دیتا۔ یہ اس کا محبوب ترین شغل تھا لیکن اس نے کبھی بدتمیزی نہ کی تھی۔ چھیڑ چھاڑ سے اسے ڈر لگتا تھا۔ جہاں تک گفتار کا تعلق ہے اسے غازی کہنا چاہیے۔ بڑے بڑے مضبوط قلعے سر کرچکا تھا۔
پرائیویٹ کمرے میں جب باہر اسٹور سے کوئی نسوائی آواز آتی تو غیاث اچھل پڑتا اور پردہ ہٹا کر ایک دم باہر نکل جاتا۔ مرد گاہکوں سے اسے کوئی دلچسپی نہیں تھی، ان سے اس کا ملازم نبٹتا تھا۔دونوں اپنے کام میں ہوشیار تھے۔ اسٹور کس طرح چلایا جاتا ہے اس کو کیونکر مقبول بنایا جاتا ہے، اس کا غیاث کو بڑا اچھا سلیقہ تھا ۔اسی طرح جلیل کو پریس کے تمام شعبوں پر کامل عبور تھا لیکن فرصت کے اوقات میں وہ صرف لڑکیوں کے متعلق سوچتے تھے۔ خیالی اور اصلی لڑکیوں کے متعلق۔
اسٹور میں کسی دن جب کوئی بھی لڑکی نہ آتی تو غیاث اداس ہو جاتا۔ یہ اداسی وہ جلیل سے ٹیلی فون پر ان لڑکیوں کے متعلق باتیں کرکے دور کرتا جو بقول اس کے، جال میں پھنسی ہوئی تھیں۔ جلیل اسے اپنے معرکے سناتا۔ دونوں کچھ دیر باتیں کرتے۔ اسٹور میں کوئی گاہک آتا یا ادھر پریس میں کسی کوجلیل کی ضرورت ہوتی تو یہ دلچسپ سلسلہ گفتگو منقطع ہو جاتا۔
اس لحاظ سے نیو پیرس اسٹور بڑی دلچسپ جگہ تھی۔ جلیل دن میں دو تین مرتبہ ضرور آتا۔ پریس سے کسی کام کے لیے نکلتا تو چند منٹوں ہی کے لیے اسٹور سے ہو جاتا۔ غیاث سے کسی لڑکی کے بارے میں چھیڑ چھاڑ کرتا اور انگلی میں موٹر کی چابی گھماتا چلا جاتا۔جلیل کوغیاث سے یہ گلہ تھا کہ وہ’’اپنی لڑکیوں‘‘ کے متعلق انتہائی رازداری سے کام لیتا ہے ،ان کا نام تک نہیں بتاتا۔ چھپ چھپ کر ان سے ملتا ہے، ان کو تحفے تحائف دیتا ہے اور اکیلے اکیلے عیش کرتا ہے۔ یہی گلہ غیاث کو جلیل سے تھا۔ لیکن دونوں کے دوستانہ تعلقات ویسے کے ویسے قائم تھے۔
ایک روز اسٹور میں ایک سیاہ برقعے والی عورت آئی۔ نقاب الٹا ہوا تھا۔ چہرہ پسینے سے شرابور تھا، آتے ہی اسٹول پربیٹھ گئی۔ غیاث جب اس کی طرف بڑھا تو اس نے برقعہ سے پسینہ پونچھ کر اس سے کہا، ’’پانی پلائیے ایک گلاس۔‘‘ غیاث نے فوراً نوکرکوبھیجا، ایک ٹھنڈا لیمن لے آئے۔ عورت نے چھت کے ساکن پنکھوں کو دیکھا اورغیاث سے پوچھا، ’’پنکھا کیوں نہیں چلاتے آپ؟‘‘ غیاث نے سرتاپا معذرت بن کر کہا،’’دونوں خراب ہوگئے ہیں۔ معلوم نہیں کیا ہوا۔۔۔ میں نے آدمی بھیجا ہوا ہے۔‘‘
عورت اسٹول پر سے اٹھی، ’’میں تو یہاں ایک منٹ نہیں بیٹھ سکتی۔‘‘ یہ کہہ کر وہ شوکیسوں کو دیکھنے لگی، ’’آدمی خاک شوپنگ کرسکتا ہے اس دوزخ میں۔‘‘ غیاث نے اٹک اٹک کرکہا، ’’مجھے افسوس ہے۔۔۔ آپ۔۔۔ آپ اندر تشریف لے چلیے۔۔۔ جس چیز کی آپ کو ضرورت ہوگی میں لا کر دوں گا۔‘‘ عورت نے غیاث کی طرف دیکھا،’’چلیے۔ ‘‘غیاث تیز قدمی سے آگے بڑھا۔ پردہ ہٹایا اور اس عورت سے کہا ،’’تشریف لائیے۔‘‘
عورت اندر کمرے میں داخل ہوگئی اور ایک کرسی پر بیٹھ گئی۔ غیاث نے پردہ چھوڑ دیا۔ دونوں میری نظروں سے اوجھل ہوگئے۔ چند لمحات کے بعد غیاث نکلا۔ میرے پاس آکر اس نے ہولے سے کہا، ’’منٹو صاحب کیا خیال ہے آپ کا اس لڑکی کے بارے میں؟‘‘ میں مسکرا دیا۔
غیاث نے ایک خانے سے مختلف اقسام کی لپ اسٹکیں نکالیں اور اندرکمرے میں لے گیا۔ اتنے میں جلیل کی موٹر کا ہارن بجا اور وہ انگلی پر چابی گھماتا نمودار ہوا۔ آتے ہی اس نے پکارا، ’’غیاث۔۔۔ غیاث، آؤ بھئی سنو ،وہ کل والا معاملہ میں نے سب ٹھیک کردیا ہے۔‘‘ پھر اس نے میری طرف دیکھا، ’’اوہ منٹو صاحب، آداب عرض۔۔۔۔ غیاث کہاں ہے؟‘‘میں نے جواب دیا، ’’اندر کمرے میں۔‘‘
’’وہ میں نے سب ٹھیک کردیا منٹو صاحب۔۔۔ ابھی ابھی پٹرول پمپ کے پاس ملی۔ پیدل جارہی تھی میں نے موٹر روکی اور کہا جناب یہ موٹر آخر کس مرض کی دوا ہے اسے مزنگ چھوڑ کر آرہا ہوں۔۔۔‘‘ پھر اس نے کمرے کے پردے کی طرف منہ کرکے آواز دی، ’’غیاث باہر نکل بے!‘‘
جلیل نے انگلی پر زور سے چابی گھمائی،’’مصروف ہے۔۔۔ اب اس نے اندر مصروف ہونا شروع کردیا ہے۔ ‘‘کہہ کر اس نے آگے بڑھ کر پردہ اٹھایا۔ ایک دم اس کے جیسے بریک سی لگ گئی۔ پردہ اس کے ہاتھ سے چھوٹ گیا، ’’سوری‘‘ کہہ کر وہ الٹے قدم واپس آیا اور گھبرائے ہوئے لہجہ میں اس نے مجھ سے پوچھا، ’’منٹو صاحب کون ہے؟‘‘ میں نے دریافت کیا، ’’کہاں کون؟‘‘
’’یہ۔۔۔ یہ جو اندر بیٹھی لبوں پر لپ اسٹک لگا رہی ہے۔‘‘
میں نے جواب دیا، ’’معلوم نہیں، گاہک ہے!‘‘
جلیل نے عینک کے موٹے شیشوں کے پیچھے آنکھیں سکیڑیں اور پردے کی طرف دیکھنے لگا۔ غیاث باہر نکلا۔ جلیل سے ’’ہلو جلیل‘‘ کہا اور آئینہ اٹھا کر واپس کمرے میں چلا گیا۔ دونوں دفعہ جب پردہ اٹھا تو جلیل کو اس عورت کی ہلکی سی جھلک نظر آئی۔ میری طرف مڑ کر اس نے کہا۔ عیش کرتا ہے پٹھا، پھر اضطراب کی حالت میں ادھر ادھر ٹہلنے لگا۔ تھوڑی دیر کے بعد وہ پردہ اٹھا۔ عورت ہونٹوں کو چوستی ہوئی نکلی۔ جلیل کی نگاہوں نے اس کو اسٹور کے باہر تک پہنچایا پھر اس نے پلٹ کر کمرے کا رخ کیا۔ غیاث باہر نکلا۔ رومال سے ہونٹ صاف کرتا۔ دونوں ایک دوسرے سے قریب قریب ٹکرا گئے۔ جلیل نے تیز لہجے میں اس سے پوچھا، ’’یہ کیا قصہ تھا بھئی؟‘‘
غیاث مسکرایا، ’’کچھ نہیں۔‘‘ یہ کہہ کر اس نے رومال سے ہونٹ صاف کیے۔ جلیل نے غیاث کے چٹکی بھری، ’’کون تھی؟‘‘
’’یار تم ایسی باتیں نہ پوچھا کرو۔‘‘ غیاث نے اپنا رومال ہوا میں لہرایا۔ جلیل نے چھین لیا، غیاث نے جھپٹا مار کرواپس لینا چاہا۔جلیل پینترہ بدل کر ایک طرف ہٹ گیا۔ رومال کھول کر اس نے غور سے دیکھا، جگہ جگہ سرخ نشان تھے۔ عینک کے موٹے شیشوں کے پیچھے اپنی آنکھیں سکیڑ کر اس نے غیاث کو گھورا، ’’یہ بات ہے!‘‘ غیاث ایسا چور بن گیاجس کو کسی نے چوری کرتے کرتے پکڑ لیا ہے، ’’جانے دو یار۔۔۔ادھر لاؤ رومال۔‘‘ جلیل نے رومال واپس کردیا، ’’بتاؤ تو سہی کون تھی؟‘‘
اتنے میں نوکر لیمن لے کر آگیا۔ غیاث نے اس کو اتنی دیر لگانے پر جھڑکا، ’’کوئی مہمان آئے تو تم ہمیشہ ایسا ہی کیا کرتے ہو۔‘‘ غیاث نے جلیل سے پوچھا، ’’یہ لیمن اسی کے لیے منگوایا گیا تھا؟‘‘
’’ہاں یار۔۔۔ اتنی دیر میں آیا ہے کم بخت۔۔۔ دل میں کہتی ہوگی پیاسا ہی بھیج دیا۔‘‘
غیاث نے رومال جیب میں رکھ لیا۔ جلیل نے شوکیس پر سے لیمن کا گلاس اٹھایا اور غٹا غٹ پی گیا، ’’ہماری پیاس تو بجھ گئی۔۔۔ لیکن یاربتاؤنا ،تھی کون۔۔۔؟ پہلی ہی ملاقات میں تم نے ہاتھ صاف کردیا۔غیاث نے رومال نکال کر اپنے ہونٹ صاف کیے اور آنکھیں چمکا کر کہا، ’’چمٹ ہی گئی۔۔۔ میں نے کہا دیکھو ٹھیک نہیں۔۔۔ دکان ہے۔۔۔ زبردستی میرے ہونٹوں کا چما لے گئی۔‘‘
ایک دم مسعود کی آواز آئی، ’’سب بکواس ہے۔۔۔ محض خود فریبی ہے۔‘‘ غیاث چونک پڑا۔ مسعود اسٹور کے باہر کھڑا تھا اس نے مجھے سلام کیا اورچل دیا۔جلیل فوراً ہی غیاث سے مخاطب ہوا، ’’چھوڑو یار تم یہ بتاؤ پھر کیا ہوا۔۔۔؟یار چیز اچھی تھی۔۔۔ کیا نام ہے؟‘‘ غیاث نے جواب نہ دیا۔ مسعود کی آواز کے اچانک حملے سے وہ بوکھلا سا گیا تھا۔ جلیل کو ایک دم یاد آیا کہ وہ تو ایک بہت ہی ضروری کام پر نکلا ہے۔ انگلی پر چابی گھما کر اس نے غیاث سے کہا، ’’لڑکی کے متعلق پھر پوچھوں گا۔۔۔ اچھا منٹو صاحب السلام علیکم‘‘ اور چلا گیا۔
میں نے مسکرا کرغیاث سے پوچھا، ’’غیاث صاحب اتنی جلدی پہلی ہی ملاقات میں آپ نے۔۔۔‘‘ غیاث جھینپ گیا۔ میری بات کاٹ کر اس نے کہا، ’’چھوڑئیے منٹو صاحب۔۔۔ آپ ہمارے بزرگ ہیں۔۔۔ چلیے اندر بیٹھیں۔ یہاں گرمی ہے۔‘‘ ہم اندر کمرے کی طرف چلنے لگے تو اسٹور کے باہر جلیل کی موٹر رکی۔ اس نے زور زور سے ہارن بجایا۔ غیاث نہ گیا تو وہ خود دوڑااندر آیا، ’’غیاث اندر آؤ۔۔۔ بس اسٹینڈ کے پاس ایک بڑی خوبصورت لڑکی کھڑی ہے۔۔۔‘‘ غیاث اس کے ساتھ چلا گیا۔ میں مسکرانے لگا۔
اس دوران میں جلیل نے بڑی مشکلوں سے اپنے باپ کو راضی کرکے ایک کرسچین لڑکی ملازم رکھ لی۔ اس کو وہ اپنی اسٹینو کہتا تھا۔ کئی بار موٹر میں اس کو اپنے ساتھ لایا،لیکن اس کو موٹر ہی میں بٹھائے رکھا۔ غیاث کو اس بات کا بہت غصہ تھا۔ ایک بار اس اسٹینو کے سامنے غیاث نے جلیل سے مذاق کیا تو وہ بہت سٹپٹایا، اس کے کان کی لویں سرخ ہوگئیں۔ نظریں جھکا کر اس نے گاڑی اسٹارٹ کی اور یہ جا وہ جا۔بقول جلیل کے یہ اسٹینو شروع شروع میں تو بڑی ریزرو رہی۔ لیکن آخر اس سے کھل ہی گئی، ’’بس اب چند دنوں ہی میں معاملہ پٹا سمجھو۔‘‘
غیاث اب زیادہ ترجلیل سے اس اسٹینو کی باتیں کرتا۔ جلیل اس سے اس لڑکی کے متعلق پوچھتا جس نے چمٹ کر اس کو چوم لیا تھا تو غیاث عموماً یہ کہتا،’’کل اس کا ٹیلی فون آیا۔ پوچھنے لگی آؤں۔۔۔؟میں نے کہا یہاں نہیں۔ تم وقت نکالو تو میں کسی اور جگہ کا انتظام کرلوں گا۔‘‘ جلیل اس سے پوچھتا، ’’کیا کہا اس نے؟‘‘ غیاث جواب دیتا، ’’تم اپنی اسٹینو کی سناؤ۔‘‘ اسٹینو کی باتیں شروع ہو جاتیں۔
ایک دن میں اورغیاث دونوں جلیل کے پریس گئے۔ مجھے اپنی کتاب کے گردپوش کے ڈیزائن کے بارے میں دریافت کرنا تھا۔ دفترمیں اسٹینو ایک کونے میں بیٹھی تھی لیکن جلیل نہیں تھا۔ اسٹینو سے پوچھا تو معلوم ہوا کہ وہ ابھی ابھی باہر نکلا ہے۔ میں نے نوکرکو بھیجا کہ اس کو ہماری آمد کی اطلاع دے۔ تھوڑی ہی دیر کے بعد جلیل آگیا۔ چق اٹھا کر اس نے مجھے سلام کیا اورغیاث سے کہا، ’’ادھر آؤ غیاث!‘‘
ہم دونوں باہر نکلے، غیاث کو ایک کونے میں لے جا کر جلیل نے اچھل کرغیاث سے کہا، ’’میدان مار لیا۔۔۔ ابھی ابھی تمہارے آنے سے تھوڑی دیر پہلے۔‘‘ یہ کہہ کر وہ رک گیا اور مجھ سے مخاطب ہوا، ’’معاف کیجیے گا منٹو صاحب۔‘‘ پھر اس نے غیاث کو زور سے اپنے ساتھ بھینچ لیا، ’’میں نے آج اس کو پکڑ لیا۔۔۔ بالکل اسی طرح۔۔۔ اور اسی جگہ۔۔۔ اس ٹریڈل کے پاس۔‘‘ غیاث نے پوچھا، ’’کیسے؟‘‘ جلیل جھنجھلا گیا، ’’ابے اپنی اسٹینو کو۔۔۔ قسم خدا کی مزا آگیا۔۔۔ یہ دیکھو۔‘‘
اس نے اپنا رومال پتلون کی جیب سے نکال کر ہوا میں لہرایا۔۔۔ اس پر سرخی کے دھبے تھے۔ ایک دم مسعود کی آواز آئی،’’بکواس ہے۔۔۔ محض خود فریبی ہے۔‘‘جلیل اور غیاث چونک اٹھے۔۔۔ میں مسکرایا۔ ٹریڈل کے توے پر سرخ روغن کی پتلی سی ہموار تہ پھیلی ہوئی تھی۔ ایک جگہ پونچھنے کے باعث کچھ خراشیں پڑ گئی تھیں۔
This work is now in the public domain in Pakistan because it originates from Pakistan and its term of copyright has expired. According to Pakistani copyright laws, all photographs enter the public domain fifty years after they were published, and all non-photographic works enter the public domain fifty years after the death of the creator. |