خود فراموش قفس ہم ہیں چمن یاد نہیں

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
خود فراموش قفس ہم ہیں چمن یاد نہیں
by ثاقب لکھنوی

خود فراموش قفس ہم ہیں چمن یاد نہیں
غیر کے ہو گئے ایسے کہ وطن یاد نہیں

چاندنی حسن کی اچھی ہے مگر ناز نہ کر
تجھ کو اس چاند کا تاریک گہن یاد نہیں

اس کی محفل میں ہوا تھا کبھی اپنا بھی گزر
باتیں کچھ کی تھیں مگر مجھ کو دہن یاد نہیں

شکوۂ ہجر کی خواہش نہ کر اے دل کہ تجھے
سامنا ہو تو کوئی رنج و محن یاد نہیں

جلوۂ حلۂ جنت سے یہ خود رفتہ ہوا
میں نے کن ہاتھوں سے پہنا تھا کفن یاد نہیں

کیوں سناتے ہو عبث اہل وفا کو باتیں
کہ انہیں طرز مکافات سخن یاد نہیں

تفرقہ ساز گروں کی یہ حد ہے کہ مجھے
مل کے بیٹھے تھے کبھی روح و بدن یاد نہیں

ہم تو مر مر کے سکھایا کئے لیکن اب تک
عشق کا حسن خود آرا کو چلن یاد نہیں

طرۂ گیسوے جاناں تری نکہت کی قسم
میں نے دیکھا تھا مگر مشک ختن یاد نہیں

کیا بتاؤں تجھے میں قید محبت کیا تھی
دست و پا کو مرے زنجیر و رسن یاد نہیں

تیرے نظارہ میں دل محو تھا ایسا دم رنج
تیغ کا پھل مجھے اے سیب ذقن یاد نہیں

داغ گنتے ہوئے گزرے ہیں قفس میں شب و روز
کس طرح کھلتے تھے گل ہائے چمن یاد نہیں

قدرداں پا کے بہل جاتے ہیں آوارہ وطن
جب تو نکلے ہوئے موتی کو عدن یاد نہیں

ذبح ہونے سے مرے ان کو تعجب ہے تو ہو
اپنے ماتھے کی وہ خوں ریز شکن یاد نہیں

کون سنتا ہے یہ افسانۂ غم اے ثاقبؔ
قابل اہل زمانہ کوئی فن یاد نہیں

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse