خوب ہی چلتی ہوئی وہ نرگس مستانہ ہے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
خوب ہی چلتی ہوئی وہ نرگس مستانہ ہے
by داغ دہلوی

خوب ہی چلتی ہوئی وہ نرگس مستانہ ہے
آشنا سے آشنا بیگانے سے بیگانہ ہے

آتے جاتے ہیں نئے ہر روز مرغ نامہ بر
بندہ پرور آپ کا گھر بھی کبوتر خانہ ہے

فاتحہ پڑھنے کو آیا تھا مگر وہ شمع رو
آج میری قبر کا جو پھول ہے پروانہ ہے

پائے ساقی پر گرایا جب گرایا ہے مجھے
چال سے خالی کہاں یہ لغزش مستانہ ہے

مجھ کو لے جا کر کہا ناصح نے ان کے روبرو
آپ کے سر کی قسم یہ آپ کا دیوانہ ہے

داغؔ یہ ہے کوئے قاتل مان ناداں ضد نہ کر
اٹھ یہاں سے آ ادھر گھر بیٹھ کچھ دیوانہ ہے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse