خوب ہاتھوں ہاتھ بدلہ مل گیا بیداد کا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
خوب ہاتھوں ہاتھ بدلہ مل گیا بیداد کا
by صفی اورنگ آبادی

خوب ہاتھوں ہاتھ بدلہ مل گیا بیداد کا
آشیاں میرا جلا گھر جل گیا صیاد کا

یہ خلاصہ مختصر ہے عشق کی روداد کا
شوق ہے ان کو ستانے کا ہمیں فریاد کا

ہر گرفتار قفس قیدی ہے بے میعاد کا
چھوڑ بھی دیتا ہے جی چاہے اگر صیاد کا

واہ مجھ ایسے مقید کو لقب آنراء کا
مصلحت صیاد کی ہے یا کرم صیاد کا

اب کیا کرتا ہے ماتم بلبل ناشاد کا
دل لرزتا ہے تقیہ دیکھ کر صیاد کا

حشر اس دن دیکھنا ہر بانیٔ بیداد کا
جب زمیں تانبے کی ہوگی آسماں فولاد کا

کیا مری فریاد کا ان پر اثر ہوتا نہیں
جو انہیں معلوم ہو جاتا سبب فریاد کا

کہتے ہیں بے قاعدہ فریاد ہم سنتے نہیں
پھر بتاتے بھی نہیں وہ قاعدہ فریاد کا

ایک خودبیں کو ہوا جس وقت خود بینی کا شوق
بن گیا منڈان سارے عالم ایجاد کا

کچھ مری فریاد بھی ان پر اثر کرتی نہیں
اور کچھ وہ بھی اثر لیتے نہیں فریاد کا

عاشقی سر پھوڑ لینے کے سوا کچھ بھی نہیں
ہم تو یہ سمجھے ہیں سن کر ماجرا فرہاد کا

دام کا کیا ذکر ہے میں بندۂ بے دام ہوں
شامت آئی پھنس گیا منہ دیکھ کر صیاد کا

انتظام آب و دانہ ہے نہ تنظیم قفس
مجھ سے پوچھو بولتا شہکار ہوں صیاد کا

نالہ و فریاد بہر عیش ہو جب اے صفیؔ
پھر کہاں تاثیر نالے کی اثر فریاد کا

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse