خوب رو سب ہیں مگر حورا شمائل ایک ہے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
خوب رو سب ہیں مگر حورا شمائل ایک ہے
by امداد علی بحر

خوب رو سب ہیں مگر حورا شمائل ایک ہے
اور مہ پارہ ہیں لیکن ماہ کامل ایک ہے

حق تعالی اس کے زلفوں سے بچائے الحذر
سامنا ہے دو بلاؤں کا مرا دل ایک ہے

کون سا راحت رساں معشوق ہے آفاق میں
دوسرا بھی آفت جاں ہے جو قاتل ایک ہے

میں تڑپتا ہوں تو کہتے ہیں اسیران قفس
زخم خوردہ ہم گرفتاروں میں بسمل ایک ہے

جس کا جی چاہا چلا آیا بغیر از اطلاع
آپ کی سرکار میں بازار و محفل ایک ہے

شمع چلتی ہے تو پروانے بھی جل جاتے ہیں ساتھ
واہ کیا ان عاشق و معشوق کا دل ایک ہے

رند و زاہد دونوں پوچھیں گے برابر دیکھنا
تفرقہ ان میں دوراہے تک ہے منزل ایک ہے

اس کی زلفوں کا تصور ہے جو ہر دم دل نشیں
میں سمجھتا ہوں کہ دو لیلیٰ ہیں محمل ایک ہے

جو معرف کاملوں کے تھی اگر ہوتی وہ آج
ہم کو بھی کہتے یہ اپنی فن میں کامل ایک ہے

بحرؔ اپنی بھی فصاحت جانتے ہیں اہل فہم
دوسرے ہم ہیں اگر سحبان‌ و ایل ایک ہے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse