خوب رویان جہاں چاند کی تنویریں ہیں

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
خوب رویان جہاں چاند کی تنویریں ہیں
by امداد علی بحر

خوب رویان جہاں چاند کی تنویریں ہیں
پتلیاں آنکھوں کی روشن ہوں وہ تصویریں ہیں

شعر گویوں کو مضامین کی توقیریں ہیں
کہنے کو ایک زمیں سیکڑوں جاگیریں ہیں

یار سے ہوتی ہے گستاخ جو ہوتی ہو سو ہو
زلفیں ہاتھوں میں ہیں یا پاؤں میں زنجیریں ہیں

کوئی آداب محبت کو بھلا کیا جائے
ذلتیں جتنی ہیں عاشق کی وہ توقیریں ہیں

کروں توبہ جو ہو پیدا بن ہر مو سے زباں
جتنے ہیں موئے بدن اتنی ہی تقصیریں ہیں

وہ بھویں مار اتاریں گے کسی دن مجھ کو
جن کے قبضے میں قضا ہے یہ وہ شمشیریں ہیں

قول حق پر ہوئے کب متفق اہل دنیا
ایک قرآن ہے جس کی کئی تفسیریں ہیں

کیا یقیں آئے مجھے حال بہشت و دوزخ
میں ہوں جس خواب میں سب اس کی یہ تعبیریں ہیں

سات دوزخ کیے خلق اس نے کریمی اس کی
ایک ہفتے کی ہمارے لیے تعزیریں ہیں

چار اینٹیں ہوئیں کس کے نہ محل نخوت
مقبرے آج سلاطین کی تعمیریں ہیں

ایک ذرے کو جو قسمت سے نہ جنبش ہو نہ ہو
خاک اڑانے کو تو آندھی مری تدبیریں ہیں

کوئی خوش خوان ہو قاصد تو بہت بہتر ہے
میرے نامے میں ترانے کی بھی تحریریں ہیں

ہڈیاں جسم میں جلتی ہیں پلیتے کی طرح
عشق کے اسم جلالی کی یہ تاثیریں ہیں

دل کو ہر وقت جو رہتی ہے بتوں کی تسبیح
اپنے نالوں کو سمجھتا ہوں کی تکبیریں ہیں

بحرؔ ارژنگ جہاں کا نہ تماشائی ہو
جن کا سایہ ہے بلا اس میں وہ تصویریں ہیں

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse