خوب تھے وے دن کہ ہم تیرے گرفتاروں میں تھے
Appearance
خوب تھے وے دن کہ ہم تیرے گرفتاروں میں تھے
غم زدوں اندوہ گینوں ظلم کے ماروں میں تھے
دشمنی جانی ہے اب تو ہم سے غیروں کے لیے
اک سماں سا ہو گیا وہ بھی کہ ہم یاروں میں تھے
مت تبختر سے گزر قمری ہماری خاک پر
ہم بھی اک سرو رواں کے ناز برداروں میں تھے
مر گئے لیکن نہ دیکھا تو نے اودھر آنکھ اٹھا
آہ کیا کیا لوگ ظالم تیرے بیماروں میں تھے
شیخ جی مندیل کچھ بگڑی سی ہے کیا آپ بھی
رندوں بانکوں میکشوں آشفتہ دستاروں میں تھے
گرچہ جرم عشق غیروں پر بھی ثابت تھا ولے
قتل کرنا تھا ہمیں ہم ہی گنہ گاروں میں تھے
اک رہا مژگاں کی صف میں ایک کے ٹکڑے ہوئے
دل جگر جو میرؔ دونوں اپنے غم خواروں میں تھے
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |