خوبی کا تیری بسکہ اک عالم گواہ ہے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
خوبی کا تیری بسکہ اک عالم گواہ ہے
by مرزا علی لطف

خوبی کا تیری بسکہ اک عالم گواہ ہے
اپنی بغیر دیکھے ہی حالت تباہ ہے

عالم سنا جو ناز کا ہے اس سے الاماں
انداز گفتگو سے خدا کی پناہ ہے

تیوری کے ڈھب ہیں اور نگہ کے ہزار ڈول
چتون کے لاکھ رنگ غرض واہ واہ ہے

ناخن یہ دل ہلال ہے ابرو کے رشک سے
مکھڑے کا داغ رکھتا کلیجے پہ ماہ ہے

خوں ریز تیری چشم کو بتلاتے ہیں ولے
چتون میں ساتھ کہتے ہیں پھر عذر خواہ ہے

خوبی کا تیرے بالوں کی مذکور ہے جہاں
سنبل کا نام اس جگہ اک رو سیاہ ہے

دیتا ہے تیری قامت دلجو کا جو پتا
بے ساختہ وہ کھینچتا اک دل سے آہ ہے

گو لطفؔ خفتہ بخت کے آؤ نہ خواب میں
لیکن ترے خیال کو نت دل میں راہ ہے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse