خوبیاں اپنے میں گو بے انتہا پاتے ہیں ہم

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
خوبیاں اپنے میں گو بے انتہا پاتے ہیں ہم
by الطاف حسین حالی

خوبیاں اپنے میں گو بے انتہا پاتے ہیں ہم
پر ہر اک خوبی میں داغ اک عیب کا پاتے ہیں ہم

خوف کا کوئی نشاں ظاہر نہیں افعال میں
گو کہ دل میں متصل خوف خدا پاتے ہیں ہم

کرتے ہیں طاعت تو کچھ خواہاں نمائش کے نہیں
پر گنہ چھپ چھپ کے کرنے میں مزا پاتے ہیں ہم

دیدہ و دل کو خیانت سے نہیں رکھ سکتے باز
گرچہ دست و پا کو اکثر بے خطا پاتے ہیں ہم

دل میں درد عشق نے مدت سے کر رکھا ہے گھر
پر اسے آلودۂ حرص و ہوا پاتے ہیں ہم

ہو کے نادم جرم سے پھر جرم کرتے ہیں وہی
جرم سے گو آپ کو نادم سدا پاتے ہیں ہم

ہیں فدا ان دوستوں پر جن میں ہو صدق و صفا
پر بہت کم آپ میں صدق و صفا پاتے ہیں ہم

گو کسی کو آپ سے ہونے نہیں دیتے خفا
اک جہاں سے آپ کو لیکن خفا پاتے ہیں ہم

جانتے اپنے سوا سب کو ہیں بے مہر و وفا
اپنے میں گر شمۂ مہر و وفا پاتے ہیں ہم

بخل سے منسوب کرتے ہیں زمانہ کو سدا
گر کبھی توفیق ایثار و عطا پاتے ہیں ہم

ہو اگر مقصد میں ناکامی تو کر سکتے ہیں صبر
درد خودکامی کو لیکن بے دوا پاتے ہیں ہم

ٹھہرتے جاتے ہیں جتنے چشم عالم میں بھلے
حال نفس دوں کا اتنا ہی برا پاتے ہیں ہم

جس قدر جھک جھک کے ملتے ہیں بزرگ و خورد سے
کبر و ناز اتنا ہی اپنے میں سوا پاتے ہیں ہم

گو بھلائی کرکے ہم جنسوں سے خوش ہوتا ہے جی
تہہ نشیں اس میں مگر درد ریا پاتے ہیں ہم

ہے ردائے نیک نامی دوش پر اپنے مگر
داغ رسوائی کے کچھ زیر ردا پاتے ہیں ہم

راہ کے طالب ہیں پر بے راہ پڑتے ہیں قدم
دیکھیے کیا ڈھونڈھتے ہیں اور کیا پاتے ہیں ہم

نور کے ہم نے گلے دیکھے ہیں اے حالیؔ مگر
رنگ کچھ تیری الاپوں میں نیا پاتے ہیں ہم


This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.