خوبیاں اپنے میں گو بے انتہا پاتے ہیں ہم
خوبیاں اپنے میں گو بے انتہا پاتے ہیں ہم
پر ہر اک خوبی میں داغ اک عیب کا پاتے ہیں ہم
خوف کا کوئی نشاں ظاہر نہیں افعال میں
گو کہ دل میں متصل خوف خدا پاتے ہیں ہم
کرتے ہیں طاعت تو کچھ خواہاں نمائش کے نہیں
پر گنہ چھپ چھپ کے کرنے میں مزا پاتے ہیں ہم
دیدہ و دل کو خیانت سے نہیں رکھ سکتے باز
گرچہ دست و پا کو اکثر بے خطا پاتے ہیں ہم
دل میں درد عشق نے مدت سے کر رکھا ہے گھر
پر اسے آلودۂ حرص و ہوا پاتے ہیں ہم
ہو کے نادم جرم سے پھر جرم کرتے ہیں وہی
جرم سے گو آپ کو نادم سدا پاتے ہیں ہم
ہیں فدا ان دوستوں پر جن میں ہو صدق و صفا
پر بہت کم آپ میں صدق و صفا پاتے ہیں ہم
گو کسی کو آپ سے ہونے نہیں دیتے خفا
اک جہاں سے آپ کو لیکن خفا پاتے ہیں ہم
جانتے اپنے سوا سب کو ہیں بے مہر و وفا
اپنے میں گر شمۂ مہر و وفا پاتے ہیں ہم
بخل سے منسوب کرتے ہیں زمانہ کو سدا
گر کبھی توفیق ایثار و عطا پاتے ہیں ہم
ہو اگر مقصد میں ناکامی تو کر سکتے ہیں صبر
درد خودکامی کو لیکن بے دوا پاتے ہیں ہم
ٹھہرتے جاتے ہیں جتنے چشم عالم میں بھلے
حال نفس دوں کا اتنا ہی برا پاتے ہیں ہم
جس قدر جھک جھک کے ملتے ہیں بزرگ و خورد سے
کبر و ناز اتنا ہی اپنے میں سوا پاتے ہیں ہم
گو بھلائی کرکے ہم جنسوں سے خوش ہوتا ہے جی
تہہ نشیں اس میں مگر درد ریا پاتے ہیں ہم
ہے ردائے نیک نامی دوش پر اپنے مگر
داغ رسوائی کے کچھ زیر ردا پاتے ہیں ہم
راہ کے طالب ہیں پر بے راہ پڑتے ہیں قدم
دیکھیے کیا ڈھونڈھتے ہیں اور کیا پاتے ہیں ہم
نور کے ہم نے گلے دیکھے ہیں اے حالیؔ مگر
رنگ کچھ تیری الاپوں میں نیا پاتے ہیں ہم
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |