خوباں کے بیچ جاناں ممتاز ہے سراپا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
خوباں کے بیچ جاناں ممتاز ہے سراپا
by فائز دہلوی

خوباں کے بیچ جاناں ممتاز ہے سراپا
انداز دلبری میں اعجاز ہے سراپا

پل پل مٹک کے دیکھے ڈگ ڈگ چلے لٹک کے
وہ شوخ چھل چھبیلا طناز ہے سراپا

ترچھی نگاہ کرنا کترا کے بات سننا
مجلس میں عاشقوں کی انداز ہے سراپا

نینوں میں اس کی جادو زلفاں میں اس کی پھاندا
دل کے شکار میں وہ شہباز ہے سراپا

غمزہ نگہ تغافل انکھیاں سیاہ و چنچل
یا رب نظر نہ لاگے انداز ہے سراپا

اس کے خرام اوپر طاؤس مست ہے گا
وہ میر دل ربابی طناز ہے سراپا

کشت امید کرتا سرسبز سبزۂ خط
انجام حسن اس کا آغاز ہے سراپا

وقت نظارہ فائزؔ دل دار کا یہی ہے
بستر نہیں بدن پر تن باز ہے سراپا

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse