خوباں جو پہنتے ہیں نپٹ تنگ چولیاں

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
خوباں جو پہنتے ہیں نپٹ تنگ چولیاں
by تاباں عبد الحی

خوباں جو پہنتے ہیں نپٹ تنگ چولیاں
ان کی سجوں کو دیکھ مریں کیوں نہ لولیاں

ہونٹوں میں جم رہی ہے ترے آج کیوں دھری
بھیجی تھیں کس نے رات کو پانوں کی ڈھولیاں

جس دن سے انکھڑیاں تری اس کو نظر پڑیں
بادام نے خجل ہو پھر آنکھیں نہ کھولیاں

تارے نہیں فلک پہ تمہارے نثار کو
لایا ہے موتیوں سے یہ بھر بھر کے جھولیاں

سنبل کو پیچ و تاب عجب طرح کی ہوئی
زلفیں جب ان نے جا کے گلستاں میں کھولیاں

گلشن میں بحثنے کو تمہارے دہن کے ساتھ
کھولا تھا منہ کو کلیوں نے پر کچھ نہ بولیاں

تاباں قفس میں آج ہیں وے بلبلیں خموش
کرتی تھیں کل جو باغ میں گل سے کلولیاں

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse