خواہ سچ جان مری بات کو تو خواہ کہ جھوٹ

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
خواہ سچ جان مری بات کو تو خواہ کہ جھوٹ
by میر حسن دہلوی

خواہ سچ جان مری بات کو تو خواہ کہ جھوٹ
سچ کہوں سچ کو اگر تیرے تو واللہ کہ جھوٹ

سچ اگر بولے تو ہم سے تو بھلا کیا ہو خوشی
جی میں جی آتا ہے سن کر ترا ہر گاہ کہ جھوٹ

راست گر پوچھے تو ہے راست کہ تجھ میں نہیں مہر
اپنی ہٹ دھرمی سے کہتا ہے تو اے ماہ کہ جھوٹ

جھوٹ موٹ ان سے میں کچھ مصلحتاً بولوں گا
سچ ہے تو بول نہ اٹھیو دل آگاہ کہ جھوٹ

میں جو پوچھا کہ تجھے غیروں سے ہے راہ تو وہ
پھیر کر منہ کو لگا کہنے باکراہ کہ جھوٹ

کوئی اتنا بھی برا کرتا ہے میری ہی طرح
کیوں بھلا سچ ہے نہ یہ اے بت دل خواہ کہ جھوٹ

دل تو واقف ہے بہت واں سے ٹک اک سچ کہنا
لاوبالی ہے مرے یار کی درگاہ کہ جھوٹ

مجھ سے جب ملتا ہے تب چھیڑ کے پوچھے ہے یہی
یہ حسنؔ سچ ہی تو رکھتا ہے مری چاہ کہ جھوٹ

کیا جواب اس کا مرے پاس بجز خاموشی
یا مگر یہ کہ یہی ہر گہ کہوں آہ کہ جھوٹ

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse