خواہاں ترے ہر رنگ میں اے یار ہمیں تھے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
خواہاں ترے ہر رنگ میں اے یار ہمیں تھے
by حیدر علی آتش

خواہاں ترے ہر رنگ میں اے یار ہمیں تھے
یوسف تھا اگر تو تو خریدار ہمیں تھے

بیداد کی محفل میں سزا وار ہمیں تھے
تقصیر کسی کی ہو گنہ گار ہمیں تھے

وعدہ تھا ہمیں سے لب بام آنے کا ہونا
سایہ کی طرح سے پس دیوار ہمیں تھے

کنگھی تری زلفوں کی ہمیں پر تھی مقرر
آئینہ دکھاتے تجھے ہر بار ہمیں تھے

نعمت تھی ترے حسن کی حصہ میں ہمارے
تو کان ملاحت تھا خریدار ہمیں تھے

سودا زدہ زلفوں کا نہ تھا اپنے سوا ایک
آزاد دو عالم تھا گرفتار ہمیں تھے

تو اور ہم اے دوست تھے یک جان دو قالب
تھا غیر سوا اپنے جو تھا یار ہمیں تھے

بیمار محبت تھا سوا اپنے نہ کوئی
اک مستحق شربت دیدار ہمیں تھے

بے اپنے بہلتی تھی طبیعت نہ کسی سے
دل سوز ہمیں تھے ترے غم خوار ہمیں تھے

اک جنبش مژگاں سے غش آتا تھا ہمیں کو
دو نرگس بیمار کے بیمار ہمیں تھے

جب چاہتے تھے لیتے تھے آغوش میں تم کو
مجبور سے رہ جاتے تھے مختار ہمیں تھے

ہم سا نہ کوئی چاہنے والا تھا تمہارا
مرتے تھے ہمیں جان سے بیزار ہمیں تھے

بد نام محبت نے تری ہم کو کیا تھا
رسوائے سر کوچہ و بازار ہمیں تھے

دل ٹھوکریں کھاتا تھا نہ ہر گام کسی کا
اک خاک میں ملتے دم رفتار ہمیں تھے

بھڑکانے سے آتشؔ کو جلانے لگے یا تو
الطاف و عنایت کے سزا وار ہمیں تھے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse