خواب میں وہ مرے آغوش میں آ جاتا ہے
Appearance
خواب میں وہ مرے آغوش میں آ جاتا ہے
میری سوتی ہوئی تقدیر جگا جاتا ہے
گل و شبنم کا یہ ہوتا ہے چمن میں انجام
ہنس کے کوئی تو کوئی رو کے چلا جاتا ہے
جوش پر فصل بہاری ہے چمن میں صیاد
اب قفس میں تو نہیں ہم سے رہا جاتا ہے
مٹ گیا ہوں وہ ستم سے نہیں غافل پھر بھی
میری تربت کا نشاں آ کے مٹا جاتا ہے
جل کے پروانہ ہوا خاک تو اس کے غم میں
منہ دھواں شمع کا محفل میں ہوا جاتا ہے
آپ نے بیٹھ کے بالیں پہ جسے دیکھا تھا
آج دنیا سے وہ بیمار اٹھا جاتا ہے
اپنے انداز پہ ایسا نہ ہو عاشق ہو جائے
آئنہ خانے میں وہ محو ادا جاتا ہے
یاد کرتا نہیں بھولے سے وہ تجھ کو نوشادؔ
ہائے تو جس کی محبت میں مٹا جاتا ہے
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |