خواب میں بھی نظر آ جائے جو گھر کی صورت

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
خواب میں بھی نظر آ جائے جو گھر کی صورت
by ریاض خیرآبادی

خواب میں بھی نظر آ جائے جو گھر کی صورت
پھاڑ کھائیں ترے درباں سگ در کی صورت

ایسی بگڑے نہ الٰہی کسی گھر کی صورت
وہی دیوار کی صورت ہے جو در کی صورت

پر شکستہ ہوں تہہ شاخ پڑا رہنے دے
باغباں تو مجھے ٹوٹے ہوئے پر کی صورت

چھوٹتا ہی نہیں اب عرش خدا بام بتاں
دیکھ لی ہے کہیں نالوں نے اثر کی صورت

گھیرے رہتا ہے بگولا مجھے اب ایک نہ ایک
کی ہے پیدا مرے صحرا نے بھی گھر کی صورت

جان جائے کہ رہے آپ کے آتے آتے
اور سے اور ہے اب درد جگر کی صورت

پانی ہو جاتے ہیں آنسو مرے موتی بن کر
ورنہ اچھی تو نہ تھی ان سے گہر کی صورت

کوچۂ زلف میں جاتے ہوئے دل ڈرتا ہے
ہر قدم پر ہے نئی خوف و خطر کی صورت

کبھی پھولا نہ پھلا نخل تمنا افسوس
پھول کی شکل نہ دیکھی نہ ثمر کی صورت

غیر کی قبر ہے گلشن ہے نہ دامن ان کا
مجھ سے دیکھی نہیں جاتی گل تر کی صورت

چارہ گر آتے ہیں تو آنکھ چرا جاتے ہیں
ایسی بگڑی ہے مرے زخم جگر کی صورت

آشیانے کو چلے باغ میں مدت گزری
پھرتی ہے آنکھ میں کیوں برق و شرر کی صورت

گھر سے بے فکر میں صحرا میں پھرا کرتا ہوں
میری آنکھوں میں پھرا کرتی ہے گھر کی صورت

قیس بھٹکا تھا کہ صحرا میں ریاضؔ آئے نظر
رہ نما اس کے بنے آپ خضر کی صورت

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse