خواب طفلی اور آرزوئے شباب

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
خواب طفلی اور آرزوئے شباب
by مہدی افادی

’’آپ کے خیال میں صنفِ نازک یعنی عورت کو کیا ہونا چاہیے؟‘‘

’’صرف خوبصورت! جس کی سرسری جلوہ گری یعنی ایک جھپک اچھے اچھوں کے لیے صاعقہ جاں سوز سے کم نہ ہو۔‘‘ ایک مغربی شاعر کہتا ہے، ’’عورت او عورت تو مجسم عشوہ گری ہے! اور دنیا میں بے فوج کی سلطنت کر سکتی ہے، تیرے فتوحات خالص اخلاقی ہیں یعنی تو دلوں پر حکومت کرنے والی ہے۔‘‘

میرا خیال ہے اس پر کچھ اضافہ کی ضرورت نہیں۔ سچ کہئے عذر اور واقعی بہت حسین ہے؟ حسین تو ایک معمولی اور سرسری لفظ ہے عورتیں سبھی اپنی اپنی جگہ حسین ہوتی ہیں، لیکن میں اپنے تخیل میں اوروں سے اس قدر مختلف ہوں۔ صرف گوشت پوست سے کام نہیں چلتا، عذرا میری عذرا! تو نظم زندگی یعنی پوری شاعری ہے۔ اس کی آواز کامل موسیقی، اس کا تبسم میرا عنصر حیات ہے، وہ قطعاً توبہ شکن ہے توبہ شکن اور کافر ایمان! ناممکن ہے کہ نظر پڑتے ہی اس پر قابو حاصل کرنے کو جی نہ چاہے۔ جہاں آنکھیں ملیں بس یہ معلوم ہوتا ہے تمام جسم میں بجلی دوڑ گئی، مدت ہوئی جب میں پہلی نظر میں شہید ہوا، دل سے آواز آئی، ’’خدایا خیر!‘‘ جس کا نتیجہ آج تک بھگت رہا ہوں۔

مجھ پر اتنا سخت وار کبھی نہیں ہوا، کچھ تو ہے جس کی وجہ سے مٹا ہوا ہوں، میری آنکھوں سے دیکھنے کی ضرورت ہے۔ لیکن خود مجھے معلوم نہیں کس ادائے خاص کا دلدادہ ہوں، پچھلی دفعہ بہت اتری ہوئی حالت میں دیکھا، پھر بھی ایک بات تھی، آج تک عالمِ تصویر آنکھوں میں پھر رہی ہے! ’’کیا عذرا آپ کے دل کا راز جانتی ہے؟‘‘ ہاں ہاں خوب جانتی ہے کہ میں اس پر مٹا ہوا ہوں لیکن تم کو ہندوستانی سوسائٹی کی حالت معلوم ہے۔ ہمارے ہاں جائز عشق کا پتہ نہیں، نہ جذبات قوت سے فعل میں آ سکتے ہیں۔ یہ بات مہذب اقوام میں ہے کہ عقد سے پہلے بیگانگی نہیں رہتی، اس کا افسوس ہے کہ میں نے عذرا کے لیے ایک نئی خلش پیدا کر دی، اور ایک ایسی فضائے بسیط پیش نظر کر دی جس میں کانٹے ہی کانٹے ہیں۔ فتنۂ خوابیدہ کو چھینٹے دے دے کر جگانا صریحی ظلم تھا۔

حصولِ آرزو جسے شعرا اپنی اصطلاح میں ’’وصل‘‘ کہتے ہیں، ایک طرح کی خود غرضی ہے، انتظار و ناکامی میں ایک لذتِ خاص ہے، اور چونکہ مجھ کو عذرا کے ساتھ خالص روحانی تعلق ہے اس لیے گو وہ مجھے گلے کا ہار نہ بنا سکے تاہم میں اس کی پرستش سے جیتے جی کبھی دست بردار نہ ہوسکوں گا۔ وقت گزر جائےگا قصے رہ جائیں گے۔ خیر سے سن کیا ہوگا؟ یہ نہ پوچھو، میں وہ پھل چاہتا ہوں جو ڈال میں ٹپکا اور پکا پکایا ہو، ادھ کچرے یعنی ثمر خام کی ضرورت نہیں، نہ پال ڈالنے کی فرصت۔ عذراکا موجودہ سن وسال عطر زندگی ہے اور عشق و محبت کے ولولے اسی زمانہ میں زیادہ ہوتے ہیں۔ سو بات کی ایک بات یہ ہے کہ مجھ کو پسند ہے اور وہ مدتوں اتنی رہےگی کہ مجھ پر فتوحات حاصل کرتی رہے، مجھے اس کے ہوتے دنیا میں کسی ور کی ضرورت نہیں۔

بعضوں کا خیال ہے جنت میں حوریں ملیں گی، لیکن جن کو ملیں گی انہیں کو مبارک! میں ادھار پر نقد کو ترجیح دیتا ہوں، اور ڈنکے کی چوٹ ’’خیام‘‘ کا ہم خیال ہوں، جھونپڑوں میں محلوں کا خواب دیکھنا نہیں چاہتا، کسی سبزہ زار یا بہتے ہوئے چشمے کے کنارے عذرا کی مخمور آنکھیں اور ایک جام شراب میری اصلی غایت زندگی ہے جس کے سوا دنیا سے کچھ نہیں چاہتا۔ میں بہیئت موجودہ، دوبارہ نہیں پیدا ہوں گا، اس لیے کس قدر ضرورت تھی کہ دوچار برس جو لطف سے کٹنے تھے، بیکار نہ جاتے۔ کل کی بات ہے میں نے شاہی کھوئی ہے، پھولوں کی سیج یاد ہے، کاش عذار مل جاتی، وہ میری نور جہاں اور زندگی کے تمام صیغوں کی حکمراں ہوتی، اسے دنیا کے سامنے شائستگی اورزندہ دلی کا نمونہ بناکر پیش کرتا، اس کی موزونیت سے طرح طرح کے فائدے اٹھاتا۔

بہرحال خدا جانے کیا کیا کرنا چاہتا ہوں، لیکن کوئی چیز جذبات کی اُکسانے والی تو ہو؟ عذرا میری اسسٹنٹ ہوتو اردو لٹریچر میں جان آ جائےگی، لیکن لوگ نہیں سمجھتے اور سمجھیں کیوں کر، ان کے ہاں ’’جنس لطیف‘‘ کا مصرف یہ ہے کہ ہانڈی چولھے کے لیے وقف رہے، گول خانے میں چوکھنٹی چیز کس قدر بے تکا پن ہے۔ افسوس! مجھے سرے سے مطلب برآری کی امید نہیں، دیکھنا محض عالم خیال سے سروکار رہا، شروع سے میرا حصۂ رسدی اتنا ہی تھا۔ دنیا میں غایت زندگی کیا ہے؟ صرف حصول مسرّت! اور یہ ایک خیالی چیز ہے، جاگے تو کسی خیال میں اور سوئے تو اس طرح،

شبِ امید بہ از روز عید می گزرد
کہ آشنا بہ تمنائے آشنا خفتہ است

غرض اٹھتے بیٹھتے ہر وقت ایک ’’عالمِ تصویر‘‘ خیال میں ہو جس سے جینا تو جینا مرنا کس قدر آسان ہوا جاتا ہے؟ فلسفیوں سے آج تک ’’حسن‘‘ کی جامع تعریف نہ ہوسکی، بہت زور لگا کر بھی اس قدر کہہ سکے کہ حسن ایک طرح کے تناسب اعضا کا نام ہے، لیکن آؤ میں تمہیں بتاؤں۔ یہ جو گوری چٹی، کشیدہ قامت، چھریرے بدن کی، کچھ چرائے چھپائے بچتی ہوئی آ رہی ہے، ذرا غور سے دیکھنا! اندھیرے میں بھی اس کا چہرہ کتنا چمک رہا ہے۔ یہ جیتی جاگتی ’’زہرۂ شب‘‘ تمہارے دل میں جگہ پائے گی، کچھ معلوم بھی ہے، کون ہے؟ غور سے دیکھو، وہ بہترین ’’عطیۂ فطرت‘‘ جسے شعراء ’’دفینہ حسن‘‘ کہتے ہیں، اور آج کل کی اصطلاح میں آپ ’’مخزنِ جذبات‘‘ (یعنی بیٹری) کہئے۔

بے خود تھے شراب پینے والے
مستی میں الٹ دیے پیالے

جس سے برقی رو تمام جسم میں دوڑ جاتی ہے، اسے امنگوں کی طرح یہ ماہ وش اپنے سینہ سے لگائے ہوئے ہے! ذرا پردے میں جوانی کی سرکشی دیکھئے گا۔ چبھتے ہوئے کپڑے گویا خود سانچے میں ڈھل گئے، جس کا جائزہ آنکھوں آنکھوں میں بھی عیشِ خالص سے کم نہیں، فطرت کا یہ نازک تر، لطیف تر، ثمر ’’پیش رس‘‘ در اصل فلسفہ حسن کا عنوانِ اولین ہے، یہاں ہوس سے کام نہیں چلنے کا، اس چیز کی تلاش ہے جو فطرت کی عام فیاضیوں کے ساتھ بھی نایاب ہے، کیونکر میں جس صاف شفاف سینہ کو سینے سے لگانا چاہتا ہوں، ضرورت ہے کہ پہلو میں وہ ایک شریفانہ دل رکھتا ہو۔ ’’رفیق زندگی‘‘ہونے کی پوری صلاحیت کے ساتھ ہمدرد وہم خیال ہو، یعنی دائرہ اوصاف کے لیے کچھ باقی نہ رہے، کتنا اچھا تخیل (آئیڈیل) ہے۔

فلسفۂ اخلاق سے جانچئے۔ ’’اقتضائے نفس‘‘ ایک دم سے ’’شایان حال‘‘ ہوا جاتا ہے۔ بڑے بڑے زاہد و مرتاض عمروں کے ریاض اور مکاشفہ کے بعد بھی ’’راز ہستی‘‘ کو نہ سمجھے، نہ کسی نے زندگی کو ’’از گہوارہ تا گور‘‘ نظر غائر سے دیکھا۔ مقصود اصلی کی تلاش تو خیر! ابھی سرے سے یہی نہیں معلوم ’’زندگی کیا ہے؟‘‘ کہاں سے آئے؟ کیوں آئے؟ کہاں جائیں گے؟ اور یہ چند روزہ ہستی فنا سے پہلے کیا چاہتی ہے؟ ہستی موجودہ بری ہو یا بھلی، اس کے حقوق کا اقتضا کیا ہے؟ بس یہی کہ ’’کسی کو گلے سے لگائیے۔‘‘ بڑے سے بڑا فلسفۂ زندگی یہی ہے، یعنی ’’حصول مسرت‘‘ کے سوا کوئی غایت ہستی نہیں، یہاں کی ہو یا آپ کے حسن ظن کے مطابق کہیں اور کی، بات ایک ہی ہے۔ ہم یہاں پئے لیتے ہیں آپ وہاں سمجھ لیجئےگا۔ بشرطیکہ یہاں وہاں دونوں جگہ احمق نہ رہئے! یہ صاف صاف اس لیے کہہ رہا ہوں کہ میرے ہاں دل اور زبان ایک چیز کے دو نام ہیں، دوسرے چھپاتے ہیں یعنی وہ نہیں کہتے جسے دل چاہتا ہے۔

بھئی کہتے تو ٹھیک ہو، ایک بات اور بتا دو کیا عذرا تم کو چاہتی ہے؟ بوڑھے بچے! یہ اس کا راز ہے تم نہ پوچھتے تو اچھا تھا! (دل کی بے قراری آنسو بن کر آنکھوں سے ٹپک پڑی) ہاں وہ دل سے چاہتی ہے، خیالی کا نوں سے سنو! دبی زبان سے کھڑی کیا کہہ رہی ہے۔

دل تو نذر کر چکی، جان باقی ہے وہ بھی قربان کردوں گی، آپ کہتے تھے عذرا چور ہے، لیکن چوری کی اچھی سزا مجھے ملی، راتیں رو رو کر کاٹتی ہوں، خدا جانے کیا روگ ہو گیا ہے۔ کھانے پینے کی طرف رغبت نہیں، نہ کسی بات میں جی لگتا ہے، کوئی پوچھتا ہے تو ٹال دیتی ہوں کہ ’’طبیعت اچھی نہیں!‘‘ مصیبت یہ ہے کہ میں آپ سے کچھ نہیں چاہتی، صرف گنہگار محبت ہوں ! دل تو مدت ہوئی کھو چکی، ہاتھ بھی اب حاضر ہے، کیونکہ اب اس لائق ہوگئی ہوں، آپ اطمینان رکھیں۔ عذرا اور بے وفائی؟ خدا اس دن کے لیے نہ رکھے! بیوی بنوں گی تو آپ کی، ورنہ عمر یونہی گزار دوں گی، یادر کھئے میں آپ کی ہوچکی! ذرا دل میں وہم نہ لائیےگا، اسے پتھرکی لکیر بلکہ نوشتۂ تقدیر سمجھئے، آپ کی صرف آپ کی۔

سیرت صورت پرستاں اور ہے
مذہب الفت پرستاں اور ہے

درد ہے جس میں وہ صہبا اور ہے
بادۂ ناب مصفّا اور ہے

جس کے ہم جو یا ہیں وہ شے اور ہے
چور ہم جس سے ہیں وہ مے اور ہے

مے ہے اپنی اور پیمانہ ہے اور
عشق کے مستوں کا میخانہ ہے اور

جب سے دیکھا اس کا جلوہ آنکھ سے
غیر عذرا کچھ نہ دیکھا آنکھ سے

سامنا ہے آفتابِ عشق سے
مست و بیخود ہوں شراب عشق سے

راقم

ہم ہنسی کھیل سمجھتے تھے لگانا دل کا
اب یہ جانا کہ اِسے کہتے ہیں آنا دل کا

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse