خم نہ بن کر خود غرض ہو جائیے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
خم نہ بن کر خود غرض ہو جائیے
by دیا شنکر نسیم

خم نہ بن کر خود غرض ہو جائیے
مثل ساغر اور کے کام آئیے

ابر رحمت سنتے ہیں نام آپ کا
خاکساروں پر کرم فرمائیے

آپ آہو چشم ہیں آہو نہیں
ہم سے وحشت کی نہ لیجے آئیے

صبر رخصت ہو تو جانے دیجئے
بے قراری آئے تو ٹھہرائیے

جوہر تیغ نگہ کھل جائے گا
منہ نہ میرے زخم کا کھلوایئے

دل میں ہے دکھلائیے تاثیر عشق
ٹھنڈی سانسوں سے انہیں گرمائیے

سرد آہیں بھرتے ہیں جب ہم نسیمؔ
کہتے ہیں وہ ٹھنڈے ٹھنڈے جائیے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse